ایشیا پیسیفک کے 15 ممالک نے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک بنا لیا ہے جس میں امریکہ اور بھارت کو شامل نہیں کیا گیا۔
اس معاہدے کا محرک چین ہے، اسے بھارت اور امریکہ کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس معاہدے کا سلسلہ سابق امریکہ صدر باراک اوبامہ نے شروع کیا تھا مگر 2017 میں صدر ٹرمپ اس سے باہر آ گئے تھے۔
اس معاہدے کو ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) کا نام دیا گیا ہے، اس پر وینتام کے دارالحکومت ہنوئی میں ایک ورچوئل کانفرنس کے دوران دستخط کیے گئے ہیں۔
اس معاہدے کے بعد ایشیاء میں امریکہ کے مقابلے میں چین کی پوزیشن مزید مستحکم ہو گئی ہے، معاہدہ چین کو ساؤتھ ایسٹ ایشیاء کے ممالک، جاپان اور کوریا کے معاشی شراکت دار کے طور پر خطے کی تجارتی کو بنانے کے لیے بہتر پوزیشن فراہم کر سکتا ہے۔
گریٹر چائنا کے چیف اکنامسٹ آئرس پینگ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے چین کو سمندر پار مارکیٹس اور ٹیکنالوجی پر اپنا انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔
آر سی ای پی معاہدے میں آسیان کے 10 ممالک کے علاوہ چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں، یہ ممالک آنے والے برسوں میں ایک دوسرے کے لیے ٹیرف میں کمی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس معاہدے پر آسیان کی آن لائن سمٹ کے دوران دستخط ہوئے، ایشیائی رہنما ساؤتھ چائنا سی کے معاملے پر تناؤ میں کمی لانے اور کورونا کے بعد معاشی بحالی جیسے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق ورچول خطاب میں چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے کہا کہ 8 سال کے مذاکرات کے بعد آر سی ای پی پر دستخط ہوئے ہیں۔