بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کے خالق کا کہنا ہے کہ اگلے برس گرمیوں میں ویکسین کے اثرات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور زندگی اگلی سردیوں میں نارمل ہو جائے گی۔
بائیو این ٹیک کی ویکسین کو تیار کرنے میں شریک پروفیسر اوگر ساہن نے کہا ہے کہ موجودہ موسم سرما بہت سخت ہو گا کیونکہ وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد پر ویکسین بڑا اثر نہیں ڈال پائے گی۔
بائیو این ٹیک کی ویکسین کتنی موثر ہے؟
گزشتہ ہفتے انہوں نے کہا تھا کہ ابتدائی تجزیے کے مطابق ان کی تیار کردہ بائیو این ٹیک ویکسین 90 فیصد سے زائد افراد کو کورونا سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس کے ٹیسٹس میں 43 ہزار افراد نے حصہ لیا تھا۔
بی بی سی کے اینڈریو مر شو کو دیے گئے انٹرویو میں پروفیسر ساہن نے بتایا کہ انہیں اعتماد ہے کہ ویکسین نہ صرف لوگوں میں وبا کے پھیلنے میں رکاوٹ بنے گی بلکہ اسے استعمال کرنے والوں میں کورونا کی علامات نمودار ہونے کو بھی روک دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 90 فیصد نہ سہی اگر 50 فیصد افراد میں بھی ویکسین موثر ثابت ہوئی تو اس سے بھی وبا کے پھیلاؤ میں ڈرامائی کمی آ جائے گی۔
بائیواین ٹیک ویکسین کی ایک کروڑ خوراکیں اس سال کے آخر میں برطانیہ میں مہیا ہوں گی، 3 کروڑ خوراکوں کا آرڈر پہلے ہی کمپنی کو مل چکا ہے۔
اس کا آزمائشی استعمال 6 ممالک میں کیا گیا ہے اور ہر رضاکار کو 3 ہفتوں کے وقفے سے اس کی 2 خوراکیں دی گئی ہیں۔
امکان یہی ہے کہ کیئر ہومز میں رہنے والے بڑی عمر کے افراد کو ویکسین دینے میں ترجیح دی جائے گی، اس کے بعد ہیلتھ ورکرز اور 80 برس سے زائد عمر کے افراد کی باری آئے گی۔
گزشتہ ہفتے اس ویکسین کے موثر ہونے کے اعلان کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سر جان بیل نے امکان ظاہر کیا ہے کہ زندگی اگلے برس موسم بہار میں نارمل سطح پر لوٹ آئے گی تاہم پروفیسر ساہن کا کہنا ہے کہ اس میں مزید دیر لگے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک انداز میں چلتا رہا تو رواں برس کے اواخر اور اگلے برس کے شروع میں ویکسین کی ڈیلیوری شروع ہو جائے گی۔
پروفیسر ساہن کے مطابق ان کا ارادہ ہے کہ اپریل 2021 تک پوری دنیا میں 3 کروڑ خوراکیں بھجوا دی جائیں، اس کے بعد ہی ویکسین کے اثرات آنا شروع ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے حقیقی اثرات موسم گرما میں نظر آنا شروع ہوں گے کیونکہ گرمی میں وبا کا پھیلاؤ کم ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اگلے خزاں یا موسم سرما سے پہلے زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگا دیں۔
ابھی بھی غیریقینی باقی ہے
ابھی ریگولیٹرز کی جانب سے ویکسین کی منظوری باقی ہے جو صرف اس صورت میں مل سکے گی اگر اس کے محفوظ اور موثر ہونے کی یقین دہانی مل جائے۔
اگرچہ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں مگر مکمل نتائج سامنے آنے میں کئی ہفتے لگ جائیں گے۔
اس کے علاوہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ بڑی عمر کے افراد پر یہ ویکسین کتنی موثر ہے۔ اسی طرح ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا یہ ویکسین کورونا وبا کا پھیلاؤ بھی روکتی ہے یا نہیں۔
اس وقت تک ہمیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ ویکسین کے استعمال کے بعد وائرس کے خلاف قوت مدافعت کتنا عرصہ برقرار رہ سکتی ہے اور اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ویکسین ہر سال لگوانا پڑے گی۔
اگر ویکسین کی دستیابی شروع ہو جاتی ہے تو بڑے پیمانے پر اس کا استعمال وقت لے گا، تاہم اس دوران دوسری ویکسین بھی میدان میں آ جائیں گی اور ہو سکتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ موثر ہوں۔
ویکسین کتنے عرصے کے لیے موثر ہو گی؟
پروفیسر ساہن سے جب سوال کیا گیا کہ کیا یہ ویکسین بڑی عمر کے افراد کے لیے بھی موثر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگلے 3 ہفتوں بعد اس بارے میں کچھ کہا جا سکے گا۔
قوت مدافعت کے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ دوسری خوراک دینے کے بعد اس کے اثرات کتنے عرصے تک قائم رہتے ہیں لیکن اگر ہر سال بھی ویکسین لگوانی پڑے تب بھی یہ کوئی پیچیدہ بات نہیں ہے۔
بائیو این ٹیک ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس کیا ہیں؟
پروفیسر ساہن کے مطابق ویکسین کے جو سائیڈ ایفیکٹس اب تک سامنے آئے ہیں ان میں انجیکشن لگنے والی جگہ پر چند روز کے لیے ہلکا یا شدید درد شامل ہے جبکہ چند رضاکاروں میں مختصر وقت کے لیے ہلکا یا درمیانہ بخار بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی قسم کے ایسے شدید سائیڈ ایفیکٹس سامنے نہیں آئے جن کے باعث اس کی آزمائش میں وفقہ یا اسے روک دینے کی نوبت آئی ہو۔
ویکسین کے اگلے مراحل کیا ہیں؟
ویکسین کے آزمائشی مرحلے کے مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد بھی برطانیہ میں اس وقت تک اسے استعمال نہیں کیا جا سکتے گا جب تک میڈیسز اینڈ ہیلتھ کئیر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کی جانب سے اس کی منظوری نہیں دے دی جاتی۔
ایم ایچ آر اے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ویکسین کی تیاری سخت ضروری ہے مگر وہ اپنے حفاظتی معیارات کو کسی صورت کم نہیں کریں گے۔
برطانیہ کے سیکرٹری صحت میٹ ہینکاک کا کہنا ہے کہ منظوری ملنے کے بعد ویکسین کا دسمبر سے استعمال شروع کر دیا جائے گا۔
کیا وائرس ہیئت تبدیل کر کے ویکسین کو غیرموثر کر سکتا ہے؟
ایک تشویش اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر کورونا وائرس نے اپنی ہیئت تبدیل کر لی تو مستقبل کی تمام ویکسینیں غیرموثر ہو سکتی ہیں۔
وبائی امراض کی پروفیسر وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ پریشانی موجود ہے کہ تیار ہونے والی ویکسین زیادہ موثر ثابت نہ ہوں کیونکہ وائرس اپنی ہیئت تبدیل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ویکسینیں بالکل کام نہ کریں، اس کے بجائے تبدیل ہوتے وائرس کے ساتھ ساتھ ویکسین کی خوراکوں میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔