سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر رؤف کلاسرا نے اپنے نئے وی لاگ میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کے درمیان جھڑپ کس وجہ سے ہوئی ہے؟
انہوں نے انکشاف کیا کہ اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف نے ٹویٹس کے ذریعے معید یوسف سے ان کے امریکی گرین کارڈ اور دیگر معاملات پر سوالات پوچھے تو انہیں نامعلوم نمبروں سے کالز آنا شروع ہوئیں کہ آپ اس معاملے کو آگے نہ بڑھائیں۔
معید یوسف، شیریں مزاری اور ارشد شریف
انہوں نے بتایا کہ منگل 17 نومبر کو کابینہ میں ہونے والے اجلاس میں معید یوسف کی کارکردگی کے متعلق سوالات اٹھائے گئے، انسانی حقوق کی وزیرشیریں مزاری اس معاملے پر خصوصی طور پر بولیں۔
رؤف کلاسرا کے مطابق معید یوسف کو شک ہے کہ ارشد شریف کو سوالات پوچھنے کا شیریں مزاری کہہ رہی ہیں کیونکہ وہ ارشد شریف کو یونیورسٹی میں پڑھاتی رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کی معید یوسف کے ساتھ ملاقات ہو چکی ہے جس میں قومی سلامتی کے مشیر نے شیریں مزاری کے حوالے سے اپنے شکوک کا اظہار کیا۔
کابینہ اجلاس میں کیا ہوا؟
رؤف کلاسرا نے اپنے ذرائع سے انکشاف کیا ہے کہ کابینہ اجلاس میں شیریں مزاری نے یہ سوالات اٹھائے کہ معید یوسف پاکستان کے لیے کیا کام کر رہے ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ کابینہ میں شاہ محمود قریشی سے یہ استفسار کیا گیا کہ کیا معید یوسف نے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ پاکستان کے دنیا کے مختلف ممالک میں کون سے اثاثہ جات موجود ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو انہوں نے یہ بات کس لیے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پر کئی کمپنیوں نے کیسز کیے ہوئے ہیں اور اگر وہ اپنے ملک میں کیس جیت جاتی ہیں تو وہ وہاں موجود پاکستانی اثاثوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ معید یوسف کی کھوج کے حوالے سے چوکنا ہو گیا۔
رؤف کلاسرا کے مطابق کابینہ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا مگر اس کا جواب دینے سے قبل ہی بات کسی اور موضوع پر چلی گئی۔
معید یوسف، شیریں مزاری کے درمیان جھگڑے کی اصل وجہ
انہوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کسی ایسی فرم سے بین الاقوامی ثالثی اور انٹرنیشنل لا کے حوالے سے مشاورت چاہتا تھا جس کا اس موضوع پر تجربہ ہو، شیریں مزاری کا اپنا ایک تھنک ٹینک ہے جو انہی معاملات پر کام کرتا ہے۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ معید یوسف کے کیمپ کے مطابق شیریں مزاری کے تھنک ٹینک نے مشاورت کے لیے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا تھا اور اس کا ٹھیکہ لینے کی کوشش کی مگر معید یوسف نے منع کر دیا اور کہا کہ اگر مشاورت ضروری ہوئی تو کسی حکومتی ادارے سے کرائی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری اس وجہ سے معید یوسف پر ناراض ہیں اور ان پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔
ارشد شریف کی معید یوسف سے ملاقات میں کیا بات ہوئی؟
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ معید یوسف امریکہ کے جس تھنک ٹینک میں کام کرتے ہیں وہاں سی آئی اے کی منظوری کے بعد تعیناتیاں ہوتی ہیں، ارشد شریف نے پہلے ٹوئٹر پر اور پھر معید یوسف سے ملاقات میں اس حوالے سے سوال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف نے مزید کئی سوالات پوچھے جن کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ ان کے والدین بزرگ ہیں، وہ ان سے ملنے کے لیے امریکہ سے لاہور آئے ہوئے تھے، وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں، وہ امریکی شہری نہیں ہیں۔
رؤف کلاسرا کے مطابق معید یوسف نے ارشد شریف کو بتایا کہ ان کا امریکہ واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں، وہ کئی ماہ سے لمز میں پڑھا رہے ہیں، اس دوران ان سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ سنبھالیں۔
ارشد شریف نے رؤف کلاسرا کو ملاقات کا احوال بتایا کہ معید یوسف کے مطابق جس طرح پاکستان میں کئی تھنک ٹینک ایسے ہیں جن میں تقرریاں پارلیمنٹ کرتی ہے اسی طرح امریکہ میں بھی سی آئی اے کئی تھنک ٹینکس میں تقرریاں کرتی ہے، ہم وہاں صرف ریسرچ کا کام کرتے ہیں۔
رؤف کلاسرا کے مطابق معید یوسف کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مہم اس لیے چل رہی ہے کہ انہوں نے بھارتیوں کو مدلل انداز میں جواب دیا ہے، اسی لیے بھارتی میڈیا میرے خلاف لکھتا رہتا ہے۔
ارشد شریف نے رؤف کلاسرا کو بتایا کہ وہ معید یوسف کے جوابات سے مطمئن ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اس اطمینان کا اظہار ٹویٹ کے ذریعے بھی کر دیا ہے۔