سعودی عرب نے پاکستان سے قرض دی ہوئی رقم واپس مانگ لی ہے جس کی ادائیگی اگلے ماہ سے شروع ہو جائے گی۔
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو بھی گئی ہے تب بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہے کیونکہ پاکستان نے اگلے چند ماہ میں بڑی رقم واپس کرنی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر متاثر ہو سکتے ہیں۔
پروگرام ‘دی ریویو’ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معیشت کی نمو شروع ہو گئی ہے، حکومت نے اخراجات میں کمی اور محصولات میں اضافہ کیا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔
شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا پروگرام اس وقت ٹیکنیکلی معطل ہے، ہو سکتا ہے کہ ہمیں متحدہ عرب امارات کے پیسے بھی جلد ادا کرنا پڑیں۔ یہی وجہ ہے کہ حفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن چند ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔
پروگرام میں شریک سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ٓج کل وزرا معیشت کے حوالے سے جس طرح کی بات کر رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انھیں آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں. حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہے۔
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جی ڈی پی کی شرح نمو منفی سے بڑھ کر ڈھائی فیصد تک آنے کا امکان ہے جبکہ مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد کمی کے بعد مزید کم ہونے کا امکان ہے۔