ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ کو تین سال تک زیر حراست رکھنے پر سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ نیب کو اس سارے عمل سے کیا حاصل ہوا ہے؟
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اصولی مؤقف کے بغیر نیب کو مقدمات کی ضمانتوں کی مخالفت کا حق نہیں دیا جا سکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ ریمارکس اس وقت دیئے جب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کے ایک اسکول میں کرپشن سے متعلق کیس کے ملزم آزاد علی کی درخواست ضمانت پر سماعت کر رہا تھا۔
اس موقع پر ملزم کے وکیل راجہ عامر عباس نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل پر 34 لاکھ روپے کی کرپشن کا الزام ہے جبکہ اس رقم کو بطور ضمانت جمع کرا چکے ہیں۔
عامر عباس کا کہنا تھا کہ اسی ریفرنس میں شامل دیگر ملزمان کی ضمانتیں منظور ہو چکی ہیں لیکن میرے موکل 19 اگست 2019 سے گرفتار ہے۔
نیب کے وکیل عمران الحق نے کہا کہ ملزم کا مقدمہ دوسرے ملزمان سے منفرد ہے، کیونکہ اصل کرپشن 34 لاکھ روپے سے زیادہ کی ہے۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزمان نے اسکولوں میں تعمیراتی کام کئے نہیں جبکہ رقوم وصول کر لی ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو حراست میں رکھنے کی مخصوص شرائط ہوسکتی ہیں، انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس کیس میں نیب کو ڈر ہے کہ ملزم بھاگ جائے گا؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے نام لئے بغیر کہا کہ گزشتہ روز جسٹس عالم کی عدالت میں ایک ملزم کو ضمانت دی گئی، کتنے عرصے بعد اس جنٹل مین کو ضمانت ملی؟ اس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزم احد چیمہ کو 2 سال 9 ماہ بعد کل سپریم کورٹ سے ضمانت ملی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ نیب کو احد چیمہ کو 3 سال جیل میں رکھنے سے کیا ملا؟ ضمانت کی مخالفت صرف اسی صورت ہو سکتی ہے جب ملزم سے معاشرے کو نقصان کا اندیشہ ہو۔
بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس میں ملزم کی ضمانت منظور کرلی، ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں 4 سے 5 بنیادوں پرملزم کو ضمانت دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں مرکزی ملزم احد چیمہ اور شریک ملزم شاہد شفیق کی ضمانت منظور کرلی تھی۔