بھارت میں زراعت کے شعبے میں نافذ کیے جانے والے نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو حکومت نے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا کہنا ہے کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کسان تنظیموں کو تین دسمبر کو مذاکرات کے لیے بلایا گیا ہے لیکن کسانوں کا کہنا تھا کہ ہم مطالبات تسلیم کیے بغیر گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔
اس سے قبل گزشتہ روز چھے ریاستوں سے دہلی کی طرف مارچ کرنے والے کسانوں کو پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر روکا گیا تھا۔
پولیس نے جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا تھا۔
کسانوں کی جانب سے پولیس کے رویے کے خلاف شدید احتجاج کے بعد انہیں نئی دہلی میں داخلے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
زراعت کے نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا تھا کہ یہ قانون کسان مخالف ہے اور کارپوریٹ کے فائدے کے لیے ہے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زراعت سے متعلق نئے قوانین کسانوں کے فائدے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اترپردیش، ہریانہ، اترکھنڈ، راجستھان، کیرالہ اور پنجاب کے کسان دہلی چلو کے نعرے کے ساتھ دہلی کے لیے نکلے تھے۔
ان کسانوں کا کہنا تھا کہ وہ دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
کسانوں کو روکنے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ خاردار تاریں لگائی تھیں جبکہ ریت سے بھرے ٹرالرز بھی شاہراہوں پر کھڑے کیے گئے تھے، ہریانہ کو جانے والی میٹرو سروسز کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ روز پولیس حکام سے متعلقہ معاملے پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ان کسانوں کو دہلی نہیں جانے دیا جا رہا۔
کسان رہنما کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کووڈ کا قانون صرف کسانوں پر ہی کیوں لگایا جا رہا ہے۔ کسانوں کو روکنے کے لیے اکٹھے ہونے والے پولیس اہلکاروں پر کیوں نہیں لگایا جا رہا تو پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ وہ بھی کسان ہی ہے۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ حکومت کسانوں سے بات چیت کے لیے تیار ہے اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔