پاکستان میں رہنے والے آجکل مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہیں۔ عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ عام آدمی کی کمر توڑتا نظر آرہا ہے۔ اس کے باوجود کاروبار ریاست جیسے لیبارٹری میں ٹیسٹ ہو رہے ہیں کہ ایک تجربہ ناکام ہوا تو دوسرا کیجئے، ایک وزیر ناکام ہوا تو دوسرا آزمائیے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو کام ٹھیک سے نہیں ہورہا اسی کو ٹھیک سے کرانے پر توجہ دی جائے یا جو وزیر اپنے کام ٹھیک سے انجام نہیں دے سکا اسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی وزرات کی طرف بھرپور توجہ دے۔
وزیر اعظم اگر ذرا سختی کریں تو انہی لوگوں سے بہترین کام لے سکتے ہیں جیسے پہلے والے کم از کم امور ریاست میں ڈسپلن تو قائم کرسکے۔ اسی طرح خان صاحب کو بھی چاہئے کہ وہ ڈسپلن پر ساری نہ سہی کچھ تو توجہ مرکوز کریں۔ جب تک چیزیں کسی ترتیب میں نہ آئیں اس وقت تک کوئی بھی کام شروع کرنے کا مطلب ہبڑ دبڑ ہی ہوگا جیسے کہ ہورہا ہے۔
بحرحال غریب عوام کی حالت یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی تو چھوڑئے ایک وقت کی ہانڈی بنانا مشکل ہوگیا ہے۔
عام آدمی جو گوشت کی قیمت سے عاجز ہوکر زیادہ تر سبزی کھا کر گزارہ کرتا تھا اب سبزی کے نرخ اس کی پہنچ سے باہر ہوگئے۔ یہیں سے اندازہ کیجئے کہ سب سے زیادہ کھائے جانے والا آلو بھی ہمارے شہر اسلام آباد و پنڈی میں 100 سے نیچے نہیں دستیاب۔ جبکہ گزشتہ ماہ تو یہ 150 فی کلو بھی مشکل سے دستیاب تھا۔
آلو دراصل ہر عمر کے لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ بڑے تو صرف سبزی بھی کھالیں لیکن بچوں کے لیے ہر گھر میں گوشت ہو یا سبزی، آلو کا ساتھ ضروری ہے جیسے بینگن ہیں تو بچوں کے لیے اس میں آلو ڈال کرپکانا ضروری ہے اسی طرح پالک آلو ،پھلیاں آلو،مٹر آلو،گوبھی آلو وغیرہ تو تقریبا ہر گھر میں آئے روز پکتا ہے۔
آلو کا ریٹ اتنا تیز دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ معلوم کیا جائے آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ابکہ یہ نرخ مسلسل اوپر کی جانب ہی جارہا ہے اور اب تک اس میں کمی کیوں نہ آئی۔ ویسے تو ہر سال ان آخری مہینوں میں آلو کا نرخ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ مارکیٹ سے آلو اٹھا لیتے ہیں، آلو کی کاشت سے لے کر تیاری تک چونکہ آلو کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور تازہ آلو نہیں آرہا ہوتا تو یہ عرصہ خوب کمائی کی جاتی ہے۔
آلو کی نئی فصل آنے میں کچھ ہفتے باقی رہتے ہیں۔ جنوری فروری تک آلو کی پٹائی (کھیتوں سے آلو نکالنا) کا عمل شروع ہوجائے گا جبکہ ایبٹ آباد مانسہرہ کی طرف اگلے ایک دو ہفتوں میں یہ عمل شروع ہوجائے گا۔
یہ ماہ نومبر دسمبرمیں عموما سٹور کیا گیا آلو استعمال ہوتا ہے کیونکہ پنجاب میں آلو کی تین فصلیں پائی جاتی ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں بوئی جانے والی فصل فروری میں تیار ہوتی ہے اس لیے اس دوران سٹور کیا ہوا آلو استعمال کیا جاتا ہے اور اسی سبب یہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ جنوری فروری میں برداشت کیا گیا آلو اگلے دو تین ماہ چلتا ہے اور یکم جنوری یا فروری میں فصل بہار کی بوائی سے برداشت تک چار ماہ لگ جاتے ہیں۔
چونکہ آلو پاکستان میں تقریبا ہر جگہ اگایاجا سکتا ہے اس لیے اس کی پیداوار میں کمی نہیں آتی لیکن حکومتی عدم توجہی کے سبب کاشتکار منافع کمانے میں مشکلات کا شکار رہتا ہے تو دوسری طرف اس کے ہر دم کثیر استعمال کے سبب یہ اکثر مہنگا ہوجاتا ہے۔ یہ خریدوفروخت کا عدم توازن حکومتوں کی نااہلی کا شاخسانہ ہے۔
گزشتہ دنوں جب ایک ملتان کے آڑھتی سے آلو کی فصل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت یہاں جو آلو خریدا گیا ہے وہ سٹور کیا ہوا پرانا آلو ہے اور اس کی قیمت 30/40 روپے فی کلو کے حساب سے پڑ رہی ہے تو یقینا جب یہ مال پنڈی اسلام آباد اور دیگر ملحقہ علاقوں کو سپلائی ہوگا تو اس کی قیمت دو سے تین گنا تک بڑھ جائے گی اسی سبب اسوقت پنڈی اسلام آباد میں نرخ آپ کو 100/ 120 تک مل رہا ہے البتہ اسلام آباد میں یہ ریٹ ایبٹ آباد مانسہرہ سے آنے والے نئے آلو کے سبب اگلے ایک دو ہفتوں میں کم ہوتا نظر آئے گا۔
استفسار پر آڑھتی نے بتایا کہ آلو کی سب سے زیادہ کاشت ضلع اوکاڑہ میں ہوتی ہے اسی لیے آلو کا تحقیقاتی ادارہ ساہیوال میں قائم ہے۔ ابھی بہاری فصل کے آنے میں دو سے تین ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ جنوری فروری میں نیا آلو مارکیٹ میں آجائے گا البتہ دسمبر اور جنوری کے مہینے میں آلو پر کیڑوں کے حملے کا خطرہ بھی رہتا ہے اگر بروقت اسپرے نہ کیا جائے تو فصل متاثر ہوسکتی ہے۔
آڑھتی سے مزید معلومات لینا چاہیں کہ اس کی بیماریوں کے متعلق جانا جاسکے تو انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے تحقیقاتی ادارہ برائے آلو ساہیوال کی ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے یہ تمام معلومات آپ کو وہاں سے مل جائیں گی۔ جب میں نے ویب سائٹ کھولی تو یقینا وہاں تمام معلومات بہت اسان انداز میں موجود تھیں جس میں زمینداروں کی رہنمائی کے لیے فصل کی کاشت، بیج، ادویات، زہر، مناسب اوقات آبپاشی و برداشت سمیت تقریبا ساری معلومات دستیاب تھیں۔
میرے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ زرعی ملک میں رہتے ہوئے ہم اپنی زراعت سے بھرہور فائدہ نہیں اٹھا رہے اور نہ ہی ہماری حکومتیں کو اس کی کوئی خاص پرواہ ہے کہ اللہ نے وطن عزیز پاکستان کو جو وسائل دئیے ہیں ان سے بھرہور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ وزیر اعظم عمران خان اگر ذرا سی توجہ زراعت کو دیں تو ہم بہت سا زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں اور کچھ نہ سہی تو کم ازکم بچے جی بھر کے آلو کے چپس تو کھائیں گے!