معروف صحافی اور اینکر رؤف کلاسرا نے وزیراعظم عمران خان کے گزشتہ روز کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اہم پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے۔
اپنے نئے وی لاگ میں ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں آئی ایس آئی اور آئی بی کی جانب سے اپنے ٹیلیفون ٹیپ کرنے کی بات کر کے ایک نیا پینڈوراز باکس کھول لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے مطابق یہ ایجنسیاں ان کا فون اس لیے ٹیپ کرتی ہیں تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے مگر اس معاملے کے کئی اہم پہلو ہیں جو ان کے اعتراف سے سامنے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں پر الزامات عموماً سیاست دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ اقتدار سے باہر ہو جاتے ہیں مگر عمران خان نے حکومت میں رہتے ہوئے یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ماضی میں ٹیلیفون ٹیپ کرنے سے جڑی کہانیاں
رؤف کلاسرا نے یاد دلایا کہ جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا تو انہوں نے دیگر الزامات کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ حکومتی ایجنسیاں میرا ٹیلیفون ٹیپ کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدر عارف علوی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس کا معاملہ بھی جب سپریم کورٹ میں پہنچا تو جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے کلائنٹ کے اور ان کی فیملی کے ٹیلیفون ٹیپ کیے جارہے ہیں۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں فاروق لغاری کے حکومت برطرف کرنے کے معاملے کو بھی شامل کیا اور کہا کہ ایسے معاملے پر تو حکومت برطرف ہو جاتی ہے، اس لیے موجودہ حکومت کو بھی اس بنیاد پر ہٹا دینا چاہیئے۔
انہوں نے ماضی کا ایک اور حوالہ بھی دیا جب 90 کی دہائی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور نواز شریف کی لڑائی کے دوران بھی یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ججوں کے ٹیلیفون ٹیپ کیے جا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ عدالت میں ان ڈیوائسز کو لے آئے تھے جو ان کے گھر کے ٹیلیفون سے جڑی ہوئی ملی تھیں اور یہ بہت بڑا اسکینڈل بنا تھا۔
رؤف کلاسرا نے بتایا کہ اسی طرح صدر نکسن کے دور میں واٹر گیٹ اسکینڈل میں بھی ٹیلیفون ٹیپ کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے پریشانی
انہوں نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد کہ ان کا ٹیلیفون ٹیپ ہوتا ہے، ملکی ایجنسیوں میں تشویش پھیل جائے گی کیونکہ کوئی بھی خفیہ ایجنسی نہیں چاہتی کہ اس کی سرگرمیوں کو اس طرح طشت ازبام پر لایا جائے۔
سینئر صحافی نے 2015 کے ایک کیس کا حوالہ دیا جس میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مختلف ایجینسیوں سے ٹیلیفون ٹیپ کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو جواب میں آئی ایس آئی نے بتایا تھا کہ فروری 2015 میں انہوں نے 6523 افراد کے فون ٹیپ کیے تھے، اسی طرح مختلف مہینوں کے اعدادوشمار دیے گئے تھے جن کی تفصیل وی لاگ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
رؤف کلاسرا کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ میں حکومت نے بتایا تھا کہ ٹیلیفون ٹیپ کرنے کے لیے وزیراعظم کی اجازت لینا ضروری ہے تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان نے ایجنسیوں کو اپنا ٹیلیفون ٹیپ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا یہ اعتراف نواز شریف کے بیانیے کی تصدیق کرنے کے مترادف ہے اور وہ اسے اپنی بات کے حق میں بطور دلیل استعمال کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت فوجی قیادت پر ایک طرف سے نوازشریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے دباؤ بڑھایا ہوا ہے تو دوسری جانب وزیراعظم خود ایسے بیانات دے جاتے ہیں جن سے فوج کے لیے اچھا میسج نہیں جاتا۔
Very informative