دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن سے قدرت ایک نعمت لے لیتی ہے اور اس کے بدلے ہزار نعمتوں سے نواز دیتی ہے۔
پرانو لال نئی دہلی سے تعلق رکھنے والا ایسا ہی ایک فوٹوگرافر ہے جو پیدائشی نابینا ہے لیکن وہ آوازیں سن کر تصاویر بنا سکتا ہے۔
پرانو لال کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی نے ان کی دنیا بدل دی ہے، وہ دی وائس نامی ٹیکنالوجی پروگرام کے ذریعے کیمرہ کی تصاویر اور مناظر کو سن سکتے ہیں اور انہیں تصاویر میں ڈھال دیتے ہیں۔
کیمرہ جیسے ہی بائیں سے دائیں جانب اسکینگ کا عمل شروع کرتا ہے، منظر میں موجود کسی بھی چیز کی ساخت کا اندازہ آواز کی پچ سے لگایا جاتا ہے جب کہ اس کا والیوم اس کی رنگت کو ظاہر کرتا ہے۔
کیمرا اردگرد کی اشیاء کی تصاویر لیتا جاتا ہے، آواز کی پچ اشیاء کی بلندی بتاتی ہے جبکہ آواز کا اتار چڑھاؤ ان اشیاء کے روشن ہونے کی وضاحت کرتا ہے۔
آواز کی ان نفاستوں کو سمجھنے کے بعد انسان کو جو مواد ملتا ہے وہ ایک طرح سے دیکھنے کے مترادف ہے۔
دی وائس نامی ٹیکنالوجی کو ڈنمارک کے ایک انجینیئرپیٹر میجر نے 1980 کی دہائی میں تیار کیا تھا۔
پیٹر میجر کی ویب سائٹ سے متعارف ہونے والی اس ٹیکنالوجی میں نابینا افراد کے لیے عینک پیش کی گئی تھی جس کے ساتھ کیمرہ منسلک کیا گیا تھا۔
اس ٹیکنالوجی کو اینڈرائیڈ فون رکھنے والے، رس بیری کمپیوٹر اور ویب ایپ رکھنے والے صارفین بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
دہلی میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والا پرانو لال اس ٹیکنالوجی کو اپنے کمپیوٹر میں استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ آن لائن خریداری کر سکتا ہے اور بیرونی خلا کی تصاویر کو بھی سن کر دیکھ سکتا ہے۔
لال معروف امریکی کمپنی ووزیکس کی کیمرہ لگی اسمارٹ عینکیں پہنتا ہے جو مناظر کو ریکارڈ کر کے آواز کی شکل میں ڈھال دیتی ہیں۔
2000 میں فوٹوگرافی کی طرف مائل ہونے والے لال کا کہنا ہے کہ میں نے سن کے دیکھنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا تو اس کے بعد میں نے دنیا سے اپنی فوٹوگرافی کے ذریعے سوال کیے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ دنیا سے شیئر کرنا چاہتے تھے کہ وہ کیا دیکھ سکتے ہیں تاکہ دنیا ان کے سوالات کے جواب دے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ تصاویربنانے سے بڑھ کر ایک مشن ہے جس کے ذریعے وہ بیرونی دنیا کو دریافت کر رہے ہیں۔