سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کو دیا گیا انٹرویو اس وقت بڑی خبر بن گیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
معروف صحافی اور ٹی وی اینکر رؤف کلاسرا نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کے ساتھ اس سے زیادہ سخت سوالات کبھی نہیں ہوئے۔
انہوں نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ ہمارے حکمران عموماً انٹرویو دینے سے قبل سوالات طے کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے منصور علی خان کو جو انٹرویو دیا اس سے پہلے پوچھا گیا کہ آپ کن کن ایریاز پر سوال کرنا چاہتے ہیں۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کو جس نے ہارڈ ٹاک میں جانے کا مشورہ دیا وہ بہت ہی ظالم تھا کیونکہ ان سے بات ہی نہیں ہو پا رہی تھی اور وہ بڑی مشکل میں پھنسے ہوئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار سے انٹرویو لینے والے میزبان کو بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا ورنہ اس سے زیادہ مشکل سوالات پوچھے جاتے کیونکہ ان کا جھوٹ بولنے کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ بہت واضح ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں اسحاق ڈار نے بطور وزیرخزانہ اعدادوشمار میں فراڈ کیا تھا اور آئی ایم ایف نے ان کا جھوٹ پکڑ لیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کو 6 کروڑ ڈالرز کے قریب جرمانہ ہوا تھا۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ سوئس بینکوں میں ہمارے 200 ارب ڈالرز پڑے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے اپنی بات سے مکرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ 2014 کے دھرنے کی وجہ سے انہیں پیپلزپارٹی کی حمایت کی ضرورت پڑ گئی تھی اور آصف زرداری کے سوئس بینکوں میں بہت پیسے پڑے ہوئے تھے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ سوئس حکومت کے ساتھ معاہدہ ہونے جا رہا تھا جس کے بعد یہ معلوم ہو جاتا کہ ہماری کتنی رقم ان کے بینکوں میں پڑی ہے مگر یہ معاہدہ بھی اسحاق ڈار نے نہیں ہونے دیا۔
رؤف کلاسرا نے اسحاق ڈار کا تیسرا جھوٹ سامنے لاتے ہوئے یاد دلایا کہ جب سابق وزیرخزانہ نیب کی حراست میں تھے تو حدیبیہ پیپرملز میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے اور حلفیہ بیان دیا تھا کہ انہوں نے شریف فیملی کے لیے کس طرح منی لانڈرنگ کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ 2002 میں جب یہ پاکستان آئے تھے اور اپنے گوشوارے جمع کرائے تو وہاں سے علم ہوا کہ ان کی آمدنی ایک دم سے بڑھی ہے اور 83 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے دبئی کے حکمران کی جانب سے خط دکھایا تھا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ اس خط میں یہ کہا گیا تھا کہ دبئی کے حکمران کو میں کنسلٹینسی دیتا ہوں اور اس کا معاوضہ لیتا ہوں اس لیے میرے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے، اس خط میں سپیلنگ بھی غلط تھے اور یہ واضح طور پر جھوٹ تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2013-14 میں اسحاق ڈار نے ایک اور کارنامہ دکھایا، انہوں نے اپنے ٹیکس ریٹرن میں کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو 45 کروڑ روپیہ قرض حسنہ دیا ہے۔ پھر کئی سال وہ یہ دکھاتے رہے کہ میرے بیٹے نے اتنے پیسے واپس کر دیے، یہ طریق واردات ان کی دیکھا دیکھی کئی دیگر ارکان پارلیمنٹ نے بھی استعمال کیا۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ آج اپنے انٹرویو میں اسحاق ڈار عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے اور حالت یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین قرضے لیے اور معیشت کو تباہ کرنے کی بنیادیں رکھ دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے 2014 میں 50 کروڑ ڈالرز کے یوروبانڈ 8.25 فیصد سود پر دیے تھے جو اس وقت دنیا کا سب سے مہنگا قرضہ تھا۔
سینئر صحافی نے بتایا کہ اسحاق ڈار نے انٹرویو میں صرف ایک جائیداد کی ملکیت مانی ہے حالانکہ نیب کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ان کے الفلاح سوسائٹی میں 3 پلاٹ ہیں، پارلیمنٹیرین انکلیو میں 2 کنال کا پلاٹ ہے، سینیٹ کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بھی پلاٹ ہے جبکہ ڈھائی کنال کا ایک اور پلاٹ بھی انہی کی ملکیت ہے۔ اسی طرح سٹاک ایکسچینج کے بھی سب سے زیادہ شیئرز اسحاق ڈار کے تھے۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ اپنے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے خود کو نوازشریف کے بیانیے سے دور رکھا ہے اور الیکشن چرانے کا الزام دو افراد پر ضرور دیا ہے مگر نام کسی کے نہیں لیے تاکہ فوجی قیادت کو بھی نرم پیغام چلا جائے۔