اسحاق ڈار کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پاکستانی صحافی سیاستدانوں سے اس طرح کے سخت سوال کیوں نہیں کرتے؟ یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی ہو رہی ہے اور اس کی پرچھائیاں ٹی وی شوز میں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
سینئر صحافی و اینکر رؤف کلاسرا نے آج کے وی لاگ میں اسی موضوع پر بات کی ہے، انہوں نے اسحاق ڈار کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ عمران خان، نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے سابقہ انٹرویوز کے کلپس بھی دکھائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا کا صحافی بار بار بات کاٹتا ہے اور سیاستدان کو غصہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انٹرویو دینے والا جس طرح کی تیاری کر کے آیا ہے اسے اس سے باہر نکال کر اس سے حقیقی باتیں نکلوائی جا سکیں۔
انہوں نے ایک کلپ دکھایا جس میں وزیراعظم عمران خان ایک خاتون اینکر کے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہے تھے، اینکر سوال کچھ اور پوچھ رہی تھی اور عمران خان اس کا جواب کچھ اور دے رہے تھے۔
اسی طرح رؤف کلاسرا نے نوازشریف کا مشہور انٹرویو دکھایا جو طلعت حسین نے لیا تھا اور جس میں احسن اقبال نے انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم کو لقمے دینے کی کوشش کی تھی اور طلعت حسین نے انہیں ٹوک دیا تھا۔
انہوں نے بینظیر بھٹو کے انٹرویو کا بھی ایک کلپ دکھایا جو معروف صحافی افتخار احمد نے لیا تھا جس میں ایک سوال پر وہ مائیک پھینک کر چلی گئی تھیں۔
اپنے وی لاگ میں رؤف کلاسرا نے بتایا ہے کہ سیاست دان جب پاکستانی صحافی کو انٹرویو دیتے ہیں تو جہاں ایک طرف وہ پہلے سے سوالات طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں وہ سخت سوالات کرنے والوں کو دوبارہ انٹرویو نہیں دیتے جس کی وجہ سے اینکر بھی احتیاط کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی صحافت اس سے مختلف ہے، وہاں انٹرویو لینے والا سخت سوالات بھی کرتا ہے، بار بار ٹوکتا بھی ہے اور موضوع سے ہٹنے بھی نہیں دیتا۔
ان کا کہنا ہے کہ گورے صحافیوں کو اسی بات کی تربیت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک خاتون اینکر نے تابڑتوڑ سوالات کے ذریعے عمران خان کو پریشان کر دیا تھا اور بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان نے اسحاق ڈار کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا۔
رؤف کلاسرا کے مطابق حقیقی صحافت بھی ہی ہے اور پاکستانی صحافیوں کو بھی اسی طرح سوالات کرتے چاہئیں، اگر کوئی انہیں دوبارہ انٹرویو نہیں دیتا تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔