سپریم کورٹ میں نیب ملزموں کے خلاف ایک سے زائد ریفرنسز دائر کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کے حوالے سے سپریم کورٹ کی خبر کو غلط چلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ملزم کے خلاف 90،90 روز کے بار بار ریمانڈ لینے کو ظلم کہا تھا، لیکن ایک اخبار میں صرف 90 روز کے ریمانڈ کو ظلم کہہ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ غلط خبر چلنے سے ادارے پر بات آتی ہے، کیونکہ عدالت قانون کی اجازت کو ظلم کیسے کہہ سکتی ہے؟
اس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ میرے حوالے سے بھی غلط خبر چلائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں 14 روز سے زیادہ کا ریمانڈ تو ہو نہیں سکتا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر کا کہنا تھا کہ ہم نے کل کے ریمارکس میں جسٹس منیر کے فیصلے کا بھی ذکر کیا تھا۔
انہوں نے خود سے منسوب 40 روز کے ریمانڈ کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تمام ادارے اس خبر کو درست کر کے دوبارہ چلائیں۔
واضح رہے قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے ملزم کو 90 روز کے لئے نظر بند رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ریمارکس کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک اخبار کی طرف سے چلائی جانے والی خبر میں کہا گیا تھا کہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر کو معاونت کے لیے طلب کرنے والے جسٹس بندیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ریفرنس میں جسمانی ریمانڈ پر ایک ملزم کو 90 دن تک نظربند رکھنا ظلم اور ناانصافی ہے۔
سپریم کورٹ سے منسوب خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 24 (ڈی) نیب کو کسی بھی ملزم کو 90 دن سے زیادہ کی مدت تک تفتیش اور تحقیق کے مقصد سے اپنی تحویل میں رکھنے کے لیے حراست میں دیتی ہے۔
لیکن متعلقہ عدالت ملزم کو زیادہ سے زیادہ 15 دن حراست میں رکھنے کا ریمانڈ دے سکتی ہے اور اس کے بعد مزید ریمانڈ کے لیے عدالت کو تحریری طور پر وجوہات قلمبند کرنا ہوں گی جس کی نقل متعلقہ اعلیٰ عدالت کو بھجوانی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے غلط خبر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خبر کی وضاحت کی اور درست خبر کو دوبارہ چلانے کا حکم دیا۔