وزیر اعظم عمران خان سے جب نیب میں گرفتاریوں سے متعلق سوال کیا گیا کہ آپ اپنی پارٹی ممبران کو تو اسکینڈل آنے کے بعد بھی پارٹی کی رکنیت سے خارج نہیں کرتے جبکہ دوسروں کے احتساب کی بات پر آپ منہ پہ ہاتھ پھیر کر قسم کھاتے ہیں کہ ان کو نہیں چھوڑوں گا تو عمران خان صاحب اس سوال کے جواب پر کچھ مشکل میں گھرے نظر آئے۔
جہانگیر ترین کے حوالے سے انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ان پر تو محض الزام ہے، ابھی معاملہ تفتیش کے مراحل میں ہے۔ مجھے یوں لگا جو بندہ اس نظام سیاست کو بدلنے کا ارادہ رکھتا یے یا کم از کم دعوے کرتا رہا اس کے لئے یہ سیاست یقینا بہت مشکل کام ہے۔ بندہ پل صراط پر ہی چلتا رہتا ہے جیسے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وقت پل صراط پر چلتے نظر آتے ہیں۔ نہ وہ اپنے بلند و بام دعووں کے سبب اس نظام سیاست کا حصہ بن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے جان چھڑا سکتے ہیں البتہ بہت ساری جگہوں پر وہ خود کو اس کے رنگ میں رنگتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اینکر منصور علی خان نے گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان سے ایک انٹرویو کیا جو اب تک کئے گئے تمام انٹرویوز سے بہتر تھا البتہ منصور خان کو بھی کہیں کہیں نرم رویہ اپنانا پڑا اور خصوصا جہاں خان صاحب نے سوال کا جواب دینے سے اجتناب کیا وہاں انہوں نے بھی دوبارہ اصرار نہ کیا۔
ان کے چند اہم سوالات میں ایک سوال سفارتی محاذ پر ناکامی اور سعودی عرب و شہزادہ محمد بن سلمان سے تعلقات کی بابت تھا جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہمارے تعلقات اچھے ہیں۔ انہوں نے وضاحت دی کہ امریکہ سے واپسی پر جہاز خرابی کے سبب واپس بلوایا گیا ورنہ کوئی تشویش کی بات نہ تھی۔ البتہ یونایٹڈ عرب امارات کے ویزوں کا مسئلہ ہے جو صرف ہمارا نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک ہیں جن کی بات چیت چل رہی ہے۔ افغانستان میں امن قائم کرنے میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا جارہا ہے امریکہ اب ڈو مور کا حکم نہیں دیتا بلکہ ہمارا مشکور ہے۔ تو اس وقت ہماری سفارت کاری گزشتہ تمام ادوار سے بہتر ہے۔
انہوں سابقہ حکومت ہر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے دور میں تو کشمیر کا نام لینے کی بھی ممانعت تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے آواز اٹھانے کے سبب پوری دنیا نے توجہ دی اور پہلی بار جرات سے اقوام متحدہ کے سامنے ہم نے کشمیر کا معاملہ اٹھایا البتہ اس سے زیادہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا کہ یہ مسئلہ اب کہاں کھڑا ہے؟ اس سوال کے جواب کے منتظر تو پاکستان کے 22کروڑ عوام کے ساتھ ساتھ مقبوضہ و جموں کے دو اطراف موجود کشمیری بھی ہیں لیکن جواب عمران خان سے بھی نہ ملا کہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے موجودہ آرٹیکل 35 اور 370 کے بعد کرفیو اور مفلوج نظام زندگی کی صورتحال جوں کی توں کب تک رہی گی؟
اینکر نے میڈیا کے حوالے سے ایک سوال کیا جس میں صحافیوں کے اچانک غائب ہوجانے اور پھر راتوں رات واپس آجانے کا ذکر تھا اس پر خان صاحب نے دلچسپ جواب دیا کہ انہیں سمجھ ہی نہیں کہ یہ کیا معاملہ ہوا؟ البتہ جب انہوں نے اس پر سوال اٹھایا کہ صحافی واپس آ جاتے رہے۔ یہ بات یقینا گول مول کر گئے کہ آخر کس نے صحافیوں کو اغوا کیا اور کون تھے جو واپس چھوڑ گئے؟ خان صاحب بس یہی کہہ سکے کہ یہ معاملہ وزرات داخلہ کے حوالے کیا تھا۔
انہوں نے میڈیا کی جانب سے منفی پروپیگنڈا اور کردار کشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یوں لگا جیسے وہ کوئی ایسی قانون سازی کرنا چاہتے ہیں جو ایسے صحافیوں اور میڈیا ہاوسزز کو سخت سزا دے جو بے بنیاد خبریں گھڑ کر کردار کشی کرتے ہیں، اس میں ہم خود بھی وزیر اعظم عمران خان کی تائید کریں گے کیونکہ صحافت کسی بھی ملک کی بنیاد کو مضبوط بنانے اور ہلانے میں مکمل اختیارات رکھتی ہے ۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے ہمارا ملک کسی کی ذاتی انا اور مفاد کی بھینٹ چڑھ جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس انٹرویو کو سنجیدہ حلقوں میں بہت پسند کیا گیا حالانکہ بہت سارے سوالات کے جواب نہیں ملے۔ منصور علی خان بھی اصرار کرتے نظر نہیں آئے بلکہ جو جواب خان صاحب نے دے دیا بس وہ بھی اسی پہ قناعت کرکے چلتے بنے۔ ان کا موقف تھا کہ وزیر اعظم نے دل بڑا کیا اور اپنے ناقد کو ایک تفصیلی انٹرویو دے دیا یہی کافی ہے۔
اس انٹرویو کا چرچہ بہت دن رہا لیکن پھر عوام کی تفریح میں کمی آنے سے قبل ہی ایک اور تماشہ مل گیا اور وہ بی بی سی کا انٹرویو ہے۔
آجکل پاکستان میں جدھر دیکھیں بی بی سی کے شو ہارڈ ٹاک کا خوب چرچہ ہے۔ اس کی وجہ ایک انٹرویو ہے جو بی بی سی اینکر اسٹیفن سکر نے سابق وزیر خزانہ اور مفرور مجرم اسحاق ڈار سے لیا۔ انٹرویو میں اسحاق ڈار سے جائیدادوں سے متعلق سوال کیا گیا کہ آپ کی کل کتنی جائیدادیں ہیں تو اسحاق ڈار گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ صرف ایک جائیداد ہے جو اس حکومت نے ضبط کرلی۔ یہ ایک ایسی بات تھی جس کا اینکر کو بھی یقین نہ آیا اور اس نے درست جواب کے لئے بار بار اصرار کیا جو یقینا ان کی ریسرچ ٹیم کے پاس بھی موجود ہوگا۔
سکر نے سخت جملے بھی کہے کہ پاکستان میں عوام پر قرض کا بوجھ ڈالنے والے سیاستدان دنیا بھر میں جائیدادیں بناتے رہتے ہیں اور جب جرم ثابت ہو جائے تو پھر عدالتوں سے بھی مفرور ہوجاتے ہیں۔ اسحاق ڈار یقینا ایسے سوالات کی توقع نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ پہلے سے مینیجڈ پاکستانی میڈیا کے عادت تھے۔ ہمارے یہاں ماسوائے چند صحافیوں کے اکثریت نے اپنی اپنی وفاداری مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک کر رکھی ہے۔ غیر جانبداری کا شدید فقدان ہے۔
عوام واضح طور پر جانتے ہیں کہ کونسا میڈیا گروپ صحافی یا اینکر کس پارٹی و شخصیت کا وفادار ہے جبکہ ایسے صحافی جو غیر جانبدار ہیں انہیں سیاستدان انٹرویو دینا پسند ہی نہیں کرتے کیونکہ اصل صحافی اسٹیفن سکر کی طرح ہی بیباک سوال کرتا ہے اور پہلے سے طے شدہ یا اپرووڈ سوالات نہیں کرتا۔
ہمارے یہاں عوام کو بھی صرف تماشہ چاہئے۔ چار دن ایک کے خلاف نعرے مارتے ہیں تو چار دن دوسرے کے خلاف شور مچانے لگتے ہیں اور پہلے کی کرپشن بھول جاتے ہیں۔ اب مریم صفدر، بلاول زرداری اور فضل الرحمان گٹھ جوڑ کو ہی دیکھئے۔ ابھی دو ڈھائی برس قبل یہی لوگ چور ڈاکو لٹیرےلوٹے اور ڈیزل کے نام سے پکارتے جارہے تھے اب ایسا کیا ہوا کہ سب اچھے ہوگئے ؟
کورونا وائرس اپنے زوروں پر ہے لیکن عوام ایسے سیاستدانوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو ان کی بدحالی و مشکلات کے ذمہ دار ہیں۔ گھروں میں کھانا پکانے کی گیس نہیں، بجلی کے بل بھرنے کے لئے رقم نہیں، کاروبار نہیں لیکن جلسوں جلوسوں میں جانا ضروری ہے۔ جب آپ کسی کو پکڑ کر پوچھیں گے کہ کیا لینے لے جا رہے ہو تو اکثریت کا جواب آپ کو حیران کردے گا کہ شغل میلہ چاہئے کیونکہ بیکار گھر بیٹھے بور ہورہے ہیں ۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ آئے روز میں خود ایسے ہی جوابات سنتی ہوں۔
ان سے جب پوچھا جائے کہ ایسے حالات میں جب بچوں کے سکول بند اور ہسپتالوں میں کورونا کے سوا علاج بند ہوچکا تو آپ کیوں نہیں گھر بیٹھتے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہم گھر نہیں بیٹھ سکتے اور موت تو برحق ہے کہیں بھی ہوں گے آجائے گی۔ جب آپ ایسی باتیں سنیں تو مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
عوام کو اپنی زندگی کسی خاص مقصد کے تحت نہیں گزارنی وہ تو بس سیاستدانوں بیوروکریٹس اور ارباب اختیار کے لئے ماحول بناتے رہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آئیں اور اپنی کمائی کریں۔ پھر ملک سے باہر جائیں اور ایک پر تعیش بریک کے بعد پھر واپس آکر نئے انداز سے اقتدار کی دوڑ میں شامل ہوجائیں۔ یہاں کون ہے جو سوال کرے؟ سوال تو بیرون ممالک میں پوچھے جاتے ہیں اور ان ممالک میں سیاستدانوں کو ایسے سوالات کا خوف ہوتا ہے اسی لئے وہاں کرپشن کم ہوتی ہے۔
ملک خداداد میں تو کسی کو کسی شے کا ڈر نہیں کیونکہ انہیں پتا ہے کس کی کیا قیمت ہے کیونکہ یہاں سب بکتا ہے اور جو نہیں بکتا اس کا حال ایسا کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی چادر سے ہی الجھتا رہتا ہے جو پاوں ڈھانپے تو سر کھلا اور سر ڈھانپے تو پاوں ننگے !!