کورونا کی تباہ کاریاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ ہم ان دنوں جون والی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ویسے داد تو عوام کو بھی دینی چاہئیے جو کورونا کی دوسری لہر کی سنگینی سے بے نیاز گلیوں بازاروں میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی کو اس بات سے غرض نہیں کہ انکی اور دوسروں کی جانوں کو اس موذی وائرس سے کس قدر خطرات لاحق ہیں۔
ویسے یہ بے نیازی ہم نے گزشتہ 73سال سے زندگی کے تمام شعبوں سے روا رکھی ہے اور آج ہم جہاں کھڑے ہیں یہ انہی بے نیازیوں کے ہی نتائج ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے پوری کردی ہے۔ کسی کو عوام کی جانوں کی پرواہ نہیں بس مسند اقتدار ان کا مطمع نظر ہے۔ حکومت نے خود جلسے کئے اور اب اپوزیشن کو تلقین کی جارہی ہے کہ جلسے نہ کریں ۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو حکومتی طرز عمل کے بعد یہ جواز مل گیا ہے کہ وہ بھی جلسے کرے۔
یہ تو اس ساری صورتحال کا ایک پہلو ہے مگر دوسری جانب عوام ہیں جو اس چکی میں پستے جا رہے ہیں ۔ یہ اعداد وشمار سے ثابت ہوچکا ہے کہ جن جن علاقوں میں حکومت اور اپوزیشن نے جلسے کیے وہاں کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ویسے مجھ ایسے کوتاہ عقل کی سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ جلسے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جلسوں سے نہ کوئی حکومت میں آیا اور نہ ہی اسے مسند اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں بننے اور گرنے کا طریقہ کار کچھ اور ہے لیکن پھر بھی اپوزیشن بضد ہے کہ جلسے جلوس ضرور ہوں گے۔ چاہے کچھ ہو جائے حکومت مخالف تحریک کا ٹیمپو نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ یہ بھی بڑی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ جب پی ڈی ایم والے کہتے ہیں کہ جلسے میں کورونا ایس او پیز کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ اتنے بڑے ہجوم میں کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ سب لوگوں کو ماسک پہنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا ممکن ہے۔ ایسے لگتا ہے جان بوجھ کر کورونا پھیلاؤ تحریک شروع کی گئی ہے۔
حکومت کی بھی نرالی منطق ہے۔ ملتان جلسے میں پہلے پکڑ دھکڑ پھر چاروں شانے چت ہوکر جلسے کی اجازت دینے کا فرمان جاری کردیا۔ اب لاہور جلسے کی اس شرط پر اجازت دیدی گئی ہے کہ جلسے کرانے والوں کے خلاف ایف آئی آر ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ اس ایف آئی آر سے کیا ہو گا؟ کیا پی ڈی ایم کی قیادت کو جیل کی ہوا کھانا پڑے گی اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پہلے کر لیں، کیا لازم ہے کہ کورونا پھیلانے کا موقع دیا جائے۔
حقائق یہ ہیں کہ حکومت کنفیوژن کا شکار ہے اور ایسا صرف پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ہر معاملے میں ایسا ہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ قوت فیصلہ کے فقدان کے باعث ہی اب تک حکومتی کارکردگی سامنے نہیں آ رہی۔ سمجھ نہیں آتی کہ مشیروں کی فوج ظفر موج سارا دن کیا کرتی رہتی ہے۔
یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ ہم نے ہر معاملے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ایک طرف کورونا لوگوں کی زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کا جوڑ پر چکا ہے۔ ہر روز میڈیا پر دونوں کی جانب سے زور دار بیانات کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔ کیا موجودہ حالات ایسے طرز عمل کے متقاضی ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا کہ اس مشکل گھڑی میں حکومت اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھتیں اور اپنے لوگوں کو کورونا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرتیں۔
آج اسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت ملک کے بڑے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ چکی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لاہور جلسے کو بھرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ ویسے موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں کئی نیرو ہیں جو چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ موجود حکومت کے دور میں مہنگائی خطرناک حد کو چھو رہی ہے اور اس بات کا اعتراف ادارہ شماریات بھی کر چکا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپوزیشن جن باتوں کو ہائی لائٹ کر کے شوروغوغا کر رہی ہے کیا ان سب مسائل کا حل ہے اس کے پاس؟ یا یہ سب باتیں زیب داستاں کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ہماری سیاست کب نعروں وعدوں اور دعووں کے سحر سے نکلے گی اور کب ہمارے عوام کا سیاسی شعور بلوغت کی منزل تک پہنچے گا؟ کب تک نعروں سے جلسوں کو گرمایا جاتا رہے گا۔
بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جب تک ملک معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا کچھ بھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو عوام کو ریلف تب ہی ملے گا جب ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔ ورنہ الزامات کی بوچھاڑ نعروں وعدوں کے حسین فریب دیئے جاتے رہیں گے۔
مجھے یاد ہے جب تحریک انصاف کے رہنماؤں سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کس طرح سے ملک کی معاشی حالت بہتر کریں گے تو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کوئی روڈ میپ انکے پاس بھی نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دو سال گزرنے کے باوجود بھی ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کی مصنوعی سانسوں سے زندہ رکھا جارہا ہے۔ قومیں نعروں سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔
کسی دانشور کا قول ہے 100 قدم چلنے سے پہلے ایک قدم اٹھانا پڑتا ہے ۔ ہم نے تو پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا تو 100 قدم تک کیسے پہنچیں گے؟ بات کہیں سے کہیں چلی گئی آخر میں اپوزیشن سے گزارش ہے کہ موجود حالات سیاست کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کریں جو عوام کے حق میں بہتر ہوں ورنہ یہ بات سچ ہو جائے گی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔