سینئر صحافی اور معروف اینکر رؤف کلاسرا کے وی لاگ میں نامور تجزیہ کار ارشاد بھٹی بھی موجود تھے اور دونوں صحافیوں نے ملک کے سیاسی حالات کا دلچسپ تجزیہ کیا۔
پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ ایک ٹی وی شو میں مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے انکشاف کیا ہے کہ نیب قوانین میں جو ترامیم لائی جا رہی تھیں وہ فوج کے کہنے پر ہو رہی تھیں۔
اس پر سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے جواب دیا کہ نیب کے خلاف مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، بیوروکریسی، عدالتیں، تاجر اور حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی قیادت بھی بات کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی کام نہیں کر رہی تھی، تاجروں کو نیب کے نوٹس آ رہے تھے، اس صورتحال میں آرمی چیف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کر کے کہا کہ اس معاملے پر خود فیصلہ کریں۔ اصل معاملہ یہی تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان بھی نیب میں ترامیم کے لیے 80 فیصد مان گئے تھے لیکن پھر لندن سے نوازشریف نے مزید شرائط رکھ دیں اور شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت دباؤ میں ہے اس لیے اور باتیں منوا لی جائیں۔ اس بات پر عمران خان بھی بگڑ گئے اور معاملہ ختم ہو گیا۔
رؤف کلاسرا نے مداخلت کرتے ہوئے بتایا کہ خود عمران خان کئی مواقع پر نیب پر تنقید کرتے رہے ہیں، ان کے ساتھی بھی نیب کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔
ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ فوج پنجاب پولیس بن جائے، ہر جنرل صبح شام سیلیوٹ مارے اور ایف آئی اے کو بھی ختم کر دیا جائے۔۔
رؤف کلاسرا کا نکتہ نظر تھا کہ عمران خان بھی آرام سے بیٹھ گئے اور یہ تاثر دیتے رہے کہ جو بھی کام کر رہی ہے وہ فوج کر رہی ہے۔ اس کے بعد فوج پر بھی تنقید ہونی تھی۔۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ان پٹ لیے بغیر کچھ نہیں ہوتا، فرق یہ ہے کہ وہاں یہ سب کچھ ایک نظام کے تحت ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں بغیر سسٹم کے ایسا ہو رہا ہے۔
اس موضوع پر ارشاد بھٹی اور رؤف کلاسرا کے درمیان تند و تیز بحث ہوئی کہ گلگت کا معاملہ ہو یا تاجروں کے مسائل ہوں، ان سب کو آرمی چیف کیوں خفیہ طور پر بلاتے ہیں، یہ معاملہ تو وزیراعظم کو طے کرنا چاہیئے۔ وی لاگ کا یہ حصہ بہت دلچسپ ہے۔
ایک موقع پر ارشاد بھٹی نے یاد دلایا کہ نوازشریف چھ چھ ماہ پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے اور چار سالہ دور میں ایک سال چھٹی پر رہے تھے، لندن میں 34 بار گئے تھے جہاں اب رہ رہے ہیں، اس کے بعد کارکردگی کا جو خلا پیدا ہو گا اسے کسی نے تو پر کرنا ہے۔
وی لاگ کے آخری حصے میں دونوں تجزیہ کاروں نے اسحاق ڈار کے انٹرویو پر بھی تبصرہ کیا، پاکستانی صحافیوں کے انٹرویو لینے کے انداز کا مغربی اینکرز سے موازنہ بھی ہوا۔