عالمی سطح پر بدلتی ہوئی معاشی اور سفارتی پالیسیوں نے وطن عزیز سمیت کئی ممالک میں نئی بحث کو جنم دیا ہے جس کے تحت یہ سمجھا جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک آنیوالے حالات میں پاکستان سے دور جا رہے ہیں تاہم مشرق وسطیٰ کے اندر کیے جانے والے ایک سروے نے ان ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
ایک حالیہ سروے میں ان خیالات کی مکمل تصدیق ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب رائے عامہ خطے کے ملکوں اور عالمی طاقتوں کی خارجہ پالیسوں کو رد کرتی ہے ۔ سروے میں شامل 58 فیصد لوگوں نے خطے سے متعلق امریکی پالیسوں کو اور 41 فیصد نے روسی خارجہ پالیسی کو بھی رد کیا۔ سروے کے نتائج اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ یہاں لوگ امریکہ، روس، فرانس اور بھارت کی خارجہ پالیسیوں کو منفی لیکن جرمنی، ترکی اور پاکستان کی پالیسیوں کو مثبت انداز سے د یکھتے ہیں۔
امریکہ کی فلسطین سے متعلق پالیسیوں کوبھی 81 فیصد لوگ رد کرتے ہیں جب کہ شام سے متعلق پالیسیوں پر 77 فیصد، یمن 74 فیصد اور لبیا پر 70 فیصد کو اعتراض ہے ۔عرب سنٹر واشنگٹن ڈی سی کے زیراہتمام کئے گئے رائے عامہ کے نئے سروے میں مشرق وسطیٰ کے 13 ملکوں میں 28 ہزار سے زیادہ لوگوں کا سروے کیا گیا تھا جن کا تعلق الجیریا، مصر، عراق، اردن، کویت، لبنان، موریطانیہ، مراکش، فلسطین، قطر، سعودی عرب، سوڈان اور تیونس سے ہے ۔
سنٹر 2011ئ سے اب تک 6 سروے کر چکا ہے جن سے خطے کی رائے عامہ کے اہم رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ سروے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے امریکہ اور اسرائیل کو خطے کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان میں عرب کے مغربی ملک اسرائیل کو اور مشرقی ملک امریکہ کو خطے کی سکیورٹی لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔
عرب ملکوں میں 2011 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو سروے میں شامل لوگوں کی اکثریت ملک کے لیے بہتر تصورکرتی ہے۔ ان میں 58 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ان مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 28 فیصد کے مطابق یہ ملک کے لیے بہتر نہیں تھے۔ ان مظاہروں کی وجوہات پر زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ استحصال، آمرانہ سیاسی نظام، اظہار رائے پر پابندیاں، سیاسی آزادی پر پہرے اور ملک میں مساوات اور انصاف کے فقدان نے خطے میں سماجی بے چینی کو جنم دیا۔ ان کے علاوہ کچھ لوگوں کے نزدیک بدعنوانی اور اقتصادی بحران سے بھی اس احتجاجی لہر کو مہمیز ملی۔
سروے کی ورچوئیل تقریبِ اجرا میں سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خلیل جھشان کا کہنا تھا کہ دنیا نے اس اہم خطے کی رائے عامہ کو اب تک اہمیت نہیں دی ہے جو ان کے مستقبل کے تعلقات پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ان رویوں کی بنا پر امید کی جاتی ہے کہ اب پالیسیوں کی تشکیل میں عام لوگوں کے رجحانات کوبھی مدنظر رکھا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کے شہری اپنے سیاسی نظام میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور انہوں نے اس تبدیلی کے لیے نوجوانوں کے مظاہروں کی بڑے پیمانے پر حمایت بھی کی ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ اب خطے کے مسائل کے حل کے لیے رائے عامہ کو اہمیت دے گی اور فلسطینی باشندوں کے حقوق کے لیے نئی حکمت عملی تشکیل دے گی۔
سروے میں شامل لوگوں نے ملک گیر بدعنوانی کوبھی ایک بڑا مسئلہ قراردیا۔ مجموعی طور پر عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے 48 فیصد شرکا نے سیاسی اور مالی بدعنوانی کو اپنے ملک کے لیے ناسور قرار دیا جبکہ 30 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ کچھ حد تک معاشرے میں سرائیت کر گیا ہے۔ سروے میں میڈیا کے استعمال اور آزادی اظہار پر بھی سوالات شامل تھے ۔ نتائج کے مطابق زیادہ تر لوگ خبروں کے لیے ٹی وی اور اخبارات پر انحصار کرتے ہیں۔
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے اس لیے ان ممالک کے لوگ خبریں کم دیکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ ممالک جہاں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہے لوگ خبروں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عرب ممالک میں 35 فیصد لوگ اب انٹرنیٹ پر سیاسی خبریں دیکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ مجموعی طور پر 73 فیصد لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جو فیس بک اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا کو استعمال کررہے ہیں۔ سروے میں شامل 87 فیصد لوگوں میں عربی زبان میں ٹویٹر مقبول ہے۔ اس کے باوجود کہ خطے کے عوام کے نزدیک جمہوریت ملک کے لیے بہتر نظام ہے ، ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت محدود ہے۔ 28 فیصد لوگ سروے کے مطابق اپنے سیاسی نظام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور 46 فیصد انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔ اس کے علاوہ 61 فیصد لوگوں کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔
اجرائی تقریب میں میڈیا کی پروفیسر سحر خمیس نے کہا کہ خطے میں لوگوں کی سیاسی شمولیت اس لیے کم ہو رہی ہے کہ سیاسی نظام صرف انہیں الیکشن میں ووٹ دینے کا حق دیتا ہے اور نتیجے کے طورپر وہ سول سوسائٹی اور سماجی مسائل میں بھی شریک ہونا پسند نہیں کرتے۔ ان کے مطابق چونکہ زیادہ تر ذرائع ابلاغ پر حکمرانوں کا تسلط ہے ، لوگ اب سوشل میڈیا کو مین سڑیم میڈیا کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں لیکن یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کس حد تک درست اور کس حدتک قابل اعتماد ہے۔
اس سروے سے مجموعی طور پر دو اہم نتائج نکالے جا سکتے ہیں: اولاً یہ کہ خطے کے عوام اپنے ہی حکمرانوں کی پالیسیوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ دوئم یہ کہ عرب رائے عامہ اپنے خطے میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کی شدید مخالف ہے۔ اگر ان دو نتائج کو ایک تیسری حقیقت سے جوڑا جائے تو صورت حال کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ بھی سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اقتصادی طور پر خاصی بری حالت میں ہے ۔ اسی طبقے نے ماضی میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کیا تھا جو بیشتر ملکوں میں برسراقتدار طبقے کی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ اس بار کورونا وائرس نے ان ملکوں میں اقتصادی بحران کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ رائے عامہ کے یہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر باشندے اپنے سیاسی اور اقتصادی نظام میں دیرپا تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے حکمرانوں کے استحصال اور استبداد سے نالاں ہیں بلکہ ان سامراجی طاقتوں سے بھی جو اپنے مفادات کے لیے ان ممالک کے حکمرانوں کا سہارا لے کر آئی ہیں اس کے باعث مشرق وسطیٰ میں ایک نئی سیاسی تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے جو ایک نئے اقتصادی نظام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
پوری دنیا میں 2008 سے شروع ہونیوالا بدترین مالی بحران 1930 میں ہونیوالے گریٹ ڈپریشن کے بعد دوسرا سب سے بڑا بحران ہے جس نے اقتصادی طور پر دنیا بھر کے ممالک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلاشبہ کورونا کی وبا نے بھی معاشی نظام کو نقصان پہنچایا ہے مگر سرمایہ دار کورونا کی وبا سے کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وبا سے اربوں ڈالر روزانہ کما رہی ہیں جبکہ دوسری طرف غربت کی حالت یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران ڈیڑھ ارب انسان غربت کی لکیر سے نیچے غرق ہو گئے ہیں۔
اس وقت 7 ارب 80 کروڑ کی آبادی میں 5 ارب سے زائد انسانوں کو مکمل غذا میسر نہیں ہے جبکہ سرمایہ داروں کی بڑھتی ہوئی امارت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف آ8 سرمایہ داروں کے پاس دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت جمع ہوچکی ہے اور یہ بڑھتی ہوئی خلیج ہی ہر براعظم اور ملک میں طبقاتی کشمکش اور تحریکوں کو جنم دے رہی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان تحریکوں کے پاس ایک عالمی انقلاب پر مبنی سوشلسٹ تنظیم یا پروگرام نہیں ہے ۔
انتہائی باریک بین ہیری شٹ نے 80 اور 90 کی دہائی میں کئی کتابیں لکھی تھیں جن میں حیران کن طور پر آنے والی تباہی کے مضمرات کی پیش گوئی کی تھی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے موجودہ مالیاتی انہدام کے متعلق پیش گوئی کی تھی 1990 کی دہائی کے اوائل میں اس نے کہا تھا کہ ایک مالیاتی ہالوکاسٹ ہر طرف تباہی مچا دے گا یہ آفت پچھلے 500 سالوں میں ہونیوالی مغربی تہذیب کی حاصلات مٹا کر ایک نئے تاریک دور کا آغاز کرے گی ۔
موجودہ حالات پر سرسری نظر دہرائی جائے تو اوسط درجے کی عقل رکھنے والا ایک آدمی بھی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک یا خطے میں معاشی استحکام نہیں ہے اور سرمایہ داروں کی ایک محدود اقلیت کے منافعوں کی ہوس نے سیارے کے مستقبل کو ہی دائو پر لگا دیا ہے۔