سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے بحرین سمٹ میں اسرائیلی وزیرخارجہ کی موجودگی میں اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ترکی الفیصل نے اسرائیل کو ایک ایسی ‘مغربی نو آبادیاتی’ طاقت قرار دیا جس کی زیرنگرانی فلسطینیوں کو عمر سے قطع نظر کمزور الزامات لگا کر حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ صرف اس صورت میں کیا جانا چاہیئے اگر اس سے فلسطین کو ایک خودمختار ریاست بننے میں مدد ملتی ہے۔
شہزدے نے تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل جب چاہے گھروں کو مسمار کر دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق جسے چاہے قتل کر دیتا ہے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصے تک سعودی انٹیلی جنس کی سربراہی کرنے والے ترکی الفیصل کی طرف سے یہ کڑی تنقید ایسے وقت پر سامنے آئی ہے کہ جب بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔
یاد رہے کہ ترکی الفیصل امریکہ اور برطانیہ میں سابق سعودی سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
شاہ سلمان کے متعلق یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہج پر لانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ وہ ایران کا مقابلہ کر سکیں اور بیرونی سرمایہ کاری کو اپنے ملک کی طرف متوجہ کر سکیں۔
اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو بہتر کرنے میں البتہ شاہ سلمان کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ اکتوبر میں اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق شاہ سلمان نے اسرائیلی-امریکی کھرب پتی ہائم سیبن کو کہا تھا کہ اگر انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول کی طرف لے جانے کی کوشش کی تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے البتہ 2002 میں شروع کی گئی امن کی کوششوں کی مکمل حمایت جاری ہے۔ اس معاہدے میں اسرائیل کو فلسطین کی ریاستی خودمختاری کے بدلے میں تمام عرب ریاستوں کی جانب سے مضبوط تعلقات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔