کویت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں مرد امیدواروں نے تمام خواتین امیدواروں کو شکست دے کر ایک نئی سمت کی جانب اشارہ دے دیا ہے۔ کویت میں ایسی صورتحال 2012 کے بعد پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے کہ پارلیمان میں کوئی خاتون رکن نہیں ہو گی۔
خیال رہے کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس مرتبہ خواتین کی سب سے بڑی تعداد نے انتخابات میں شرکت کی تھی۔ یہ حقیقت جاننا بھی دلچسپی سے عاری نہیں کہ کویت میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق 15 برس قبل حاصل ہوا تھا۔
کل 50 پارلیمانی نشستوں کے لیے 342 امیدواروں نے مقابلے میں حصہ لیا جس میں 29 خواتین امیدوار تھیں تاہم کوئی بھی خاتون امیدوار رکن بننے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ جیتنے والوں میں سے کئی امیدوار پہلی مرتبہ قانون ساز اسمبلی میں شامل ہوں گے۔
سابق 50 پارلیمانی ارکان میں سے 44 نے اس بار کے انتخابات میں حصہ لیا البتہ صرف 19 کے لیے جیت ممکن ہو سکی۔ دوبارہ جیتنے والے ارکان میں سے عدنان عبدالصمد 11 مرتبہ لگاتار منتخب ہو کر پرلیمان میں سب سے لمبا عرصہ صرف کرچکے ہیں۔
کورونا وبا کے باوجود بھی ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ سخت ہدایات اور پالیسیز کے تحت ووٹرز کی طرف سے ووٹنگ مرکزوں پر لمبی قطاروں اور بڑے ہجوموں کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
اگر 2019 میں دو اضلاع میں منعقد کردہ انتخابات کو شامل نہ کیا جائے جن میں صرف دو پارلیمانی اراکین تبدیل ہوئے تھے تو یہ کویت میں 2016 کے بعد ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔
انتخابات کے نتائج میں متعدد سابقہ اراکین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم منتخب ہونے والے اراکین میں 50٪ تعداد غیر سرکاری اپوزیشن گروپوں کے افراد کی ہے۔
خلجی ممالک میں سے کویت نے سب سے پہلے 1963 میں پارلیمانی انتخابات کا قیام کیا تھا اور کویتی پارلیمان مشرق وسطی کے ممالک میں سے سب سے مضبوط پارلیمان ہے۔