پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کی سماعت کے دوران ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ 7 رکنی بیچ کے فیصلے کو 6 رکنی بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ میرے مقدمے کی سماعت کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔
یاد رہے سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیاں کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران اہلیہ فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آنے کی اجازت چاہی، تو جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ منیر ملک دلائل کا آغاز کر لیتے، جس پر بیگم سرینا عیسیٰ نے کہا میں متاثرہ فریق ہوں، اور عدالت کے سامنے حقائق رکھنا چاہتی ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے بہت سے معاون وکیل ہیں، آپ کی صاحبزادی بھی ساتھ ہے، اس پر سرینا عیسیٰ نے کہا میری بٹی بیرسٹر ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آج آپ کو تفصیل سے سنیں گے۔
اجازت ملنے پر بیگم سرینا عیسیٰ نے اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے بینچ کے ایک ایک رکن کو مخاطب کیا۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ رولز کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا ہے، وہی نظرثانی بھی سنتا ہے، میں اس کیس میں فریق نہیں تھی لیکن اس کے باوجود 81 مرتبہ میرا نام لیا گیا۔
بعد ازاں انہوں نے اپنے مقدمے کی سماعت کیلئے دس رکنی بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ چھ رکنی بینچ سات رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا، اس حوالے سے ہم نے آپ کے نکات رجسٹر کر لئے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے چھ رکنی بینچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔
انہوں نے بینچ میں شامل تمام ججز کے نام لے کر ان سے ایک ہی سوال دہرایا کہ کیا چھ رکنی بینچ سات رکنی بینچ کے فیصلے کی نظر ثانی سن سکتا ہے؟
بیگم سرینا عیسیٰ کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان کو اس مقدمے کا فریق قرار دینے پر جسٹس عمر عطا بندیال برہم ہو گئے، انہوں نے کہا کہ آپ چیف جسٹس پر الزام لگا رہی ہیں، آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پر الزام لگایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ ادارے اور اس کے سربراہ کے بارے بات کرتے ہوئے محتاط رہیں، چیف جسٹس بینچ بنا سکتا ہے کیونکہ یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے برہمی پر سیرینا عیسی نے عدالت سے معافی مانگ لی اور کہا کہ میرا مقصد کسی معزز جج کی دل آزاری نہیں تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔
دوران سماعت وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ اگر نو جج نظرثانی کیس سنیں تو اس سے نقصان کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔
بینچ کے رکن جسٹس میب اختر نے کہا کہ ایک سینئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے، بعد ازاں بینچ نے کیس کی سماعت جمرات 10 دسمبر تک ملتوی کر دی۔