سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار بھارتی آرمی چیف وہاں پہنچ گئے ہیں، وہ اپنے 4 روزہ دورے میں یو اے ای بھی جائیں گے اور انہوں نے سعودی عرب کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں لیکچر بھی دینا ہے۔
سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر رؤف کلاسرا نے اس موضوع پر وی لاگ کیا ہے اور پاکستان اور سعودی عرب کے بگڑتے تعلقات پر بات کی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات ایک بلاک کی شکل اختیار کر رہے ہیں، سعودی عرب نے 1500 پاکستانیوں کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔ اسی طرح یو اے ای نے پاکستانی ورکرز کو ویزا دینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
عمران خان، شہزادہ محمد بن سلمان کے تعلقات کی تاریخ
رؤف کلاسرا نے یاد دلایا کہ جب شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آئے تھے تو ان کا غیرمعمولی استقبال کیا گیا تھا، عمران خان نے ان کے لیے گاڑی ڈرائیو کی تھی اور ہمارے طیاروں نے انہیں سلامی دی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای نے 12 ارب ڈالرز کا پیکج دیا اور 20 ارب ڈالرز کی آئل ریفائنری لگانے کا وعدہ کیا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے دونوں ممالک سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اچانک سعودی عرب نے اپنے پیسے واپس مانگ لیے اور تیل کی فراہمی بھی روک دی، آئل ریفائنری کا منصوبہ بھی ترک کر دیا۔
پاک سعودیہ تعلقات خراب کیوں ہوئے؟
رؤف کلاسرا کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں سعودی عرب پر تنقید کی جس کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید سعودی عرب گئے مگر ان سے نہ ہی شاہ سلمان نے ملاقات کی اور نہ ہی شہزادہ محمد بن سلمان سے میٹنگ ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام تر معاملے میں وزیراعظم عمران خان نے تعلقات کی بحالی کے لیے کسی قسم کی کوشش نہیں کی اور اس معاملے پر لاتعلق نظر آئے۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس کے دوران بعض دفعہ شہزادہ محمد بن سلمان کے متعلق ناخوشگوار قسم کی گفتگو کی گئی جو ان تک پہنچ گئی اور تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہوئی۔
روف کلاسرا نے بتایا کہ جب عمران خان پہلی بار علیم خان کے جہاز پر سعودی عرب گئے تھے تو زلفی بخاری بھی ان کے ساتھ تھے جس پر سعودی عرب خوش نہیں ہوئے تھے کیونکہ انہیں ایران کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی حکمران اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ وزیراعظم کے قریبی افراد میں ایران کے کیمپ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کا ترکی کی طرف رجحان بھی سعودی عرب کے لیے خفگی کا باعث بنا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا یہ شکوہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں سعودی عرب کھل کر پاکستان کا ساتھ نہیں دیتا۔
اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟
رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے قریبی حلقوں سے بات ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خطے میں نئے سٹریٹجک بلاکس بن رہے ہیں، اس میں پریشانی کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ہم نے ہر دور میں سعودی عرب کی حمایت کی ہے مگر ان کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے۔
رؤف کلاسرا کے مطابق ترکی اور ملائشیا نے کھل کر کشمیر ایشر پر پاکستان کی حمایت کی ہے اس لیے پاکستان بھی اپنی آزاد خارجہ پالیسی رکھ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہی ایران اور نہ ہی ترکی پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کھپانے کے قابل ہے، یوں جو زرمبادلہ خلیجی ممالک سے پاکستان بھیجتے ہیں اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔