گزشتہ روز جن کالم نگاروں کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے ان میں معروف صحافی ارشاد بھٹی بھی شامل تھے۔ سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے نئے وی لاگ میں ان سے ملاقات کی تفصیل پوچھی ہے۔
ارشاد بھٹی نے بتایا کہ وزیراعظم ملاقات کے دوران پراعتماد نظر آ رہے تھے مگر ان پر تھکن غالب تھی۔ پرنٹ میڈیا کا مزاج الیکٹرانک میڈیا سے مختلف ہے، اس میں جارحیت زیادہ نہیں ہوتی اور سوالات نرم لہجے میں کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں گے مگر اپوزیشن کے آگے نہیں جھکیں گے، وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں اقتدار سے محروم کر دیا گیا تو پھر اگلی حکومت کے خلاف وہ بھی سڑکوں پر آئیں گے اور عوام پرانا خان دیکھے گی۔
رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ عمران خان کئی بار ایسی گفتگو کر چکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کمزور پڑ چکے ہیں مگر ارشاد بھٹی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ وزیراعظم کئی باتیں ایسی کر دیتے ہیں جن سے احتراز بہتر ہے مگر فوج کے ساتھ ان کے تعلقات میں کوئی خرابی نہیں آئی۔
ارشاد بھٹی نے بتایا کہ اپوزیشن کی تحریک کے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کھل کر کہا کہ اس کے پیچھے چند ملک ہو سکتے ہیں جس پر تمام صحافی حیران رہ گئے۔
رؤف کلاسرا کا موقف تھا کہ پی این اے کی تحریک سے لے کر وکلا تحریک تک تمام کے متعلق کسی نہ کسی طاقت کا کہا جاتا ہے۔
انہوں نے سوال پوچھا کہ کون سی بیرونی قوت عمران خان کے خلاف ہو سکتی ہے؟ رؤف کلاسرا نے کہا کہ آپ کا اشارہ ایک خلیجی ملک کی طرف ہے تو وہ کچھ عرصہ پہلے تو عمران خان کے بھائی بنے ہوئے تھے؟ اب ڈیڑھ سال میں ایسا کیا ہوا کہ وہ ان کے مخالف ہو گئے؟
ارشاد بھٹی کے خیال میں پاکستان کا ایران کی طرف جھکاؤ، ترکی سے بڑھتے روابط اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک کے مفادات بھارت سے زیادہ وابستہ ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین بھی بعض قوتوں کے آلہ کار تھے، جب وہ ان کے لیے کارآمد نہیں رہے تو نواز شریف ان کے ساتھ مل گئے۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ اپوزیشن لاشیں چاہتی ہے اور حکومت انہیں بالکل نہیں دے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران عمران خان نے مضبوط لہجے میں کہا ہے کہ یہ میری آخری لڑائی ہے، اسے میں لڑوں گا اور اسے جیتوں گا۔ یہ لوگ نیب کا خاتمہ چاہتے ہیں جو میں نہیں ہونے دوں گا۔
رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے کالم نویسوں کو نہیں بلایا گیا جو عمران خان پر تنقید کرتے ہیں، حالانکہ ان سے ملاقات میں عمران خان کے لیے بہترین ہو گی۔
ارشاد بھٹی نے رؤف کلاسرا کی اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ تنقید کرنے والے سینئر صحافی اگر وزیراعظم کے ساتھ بیٹھیں گے تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیں گے۔