پاکستان کے نامور صحافی اور ٹی وی اینکر رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں کی طاقتور اشرافیہ اپنے مفادات ہر صورت میں حاصل کر لیتی ہے، حکمران چاہے کچھ بھی دعوے کر کے آ جائیں وہ اس کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔
اپنے وی لاگ میں انہوں نے کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق بتایا ہے کہ گزشتہ ایک برس سے یہ سنا جا رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں بھی اس حوالے سے بات کی تھی۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ جب یہ خبریں سامنے آئی تھیں تو وزراء میں بہت خوف پھیلا ہوا تھا اور ان میں سے بعض اخبار نویسوں سے اندر کی خبریں پوچھتے پھر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہونے والی کابینہ کی تبدیلیوں کی عمران خان نے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور یہ سب کے لیے ایک سرپرائز تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شیخ رشید پہلے دن سے ہی وزارت داخلہ کے قلمدان پر نظریں جمائے ہوئے تھے اور اس حوالے سے ان کی شروع میں وزیراعظم سے بھی بات ہوئی تھی مگر عمران خان اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔
رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ سابق وزیرداخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ درمیانی راستہ اختیار کرنے کے قائل تھے، ان کا خیال تھا کہ حکومت کو سیاسی معاملات میں نرمی سے کام لینا چاہیئے، لیکن عمران خان سختی کا رستہ اپنانا چاہتے تھے اس لیے وہ ان سے زیادہ خوش نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان شہزاد اکبر کو اسی لیے لائے تھے تاکہ وہ اپوزیشن کو دبا سکیں۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ شہزاد اکبر نیب کے دفتر بھی جاتے رہتے ہیں اور جو بھی عمران خان کے خلاف تقریر کرتا ہے اسے ٹائٹ کرنے کا حکم جاری کر دیتے ہیں۔ ایف آئی اے کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کو اس لیے وزیرداخلہ کا عہدہ دیا گیا ہے تاکہ جب اپوزیشن کی تحریک اسلام آباد کا رخ کرے تو وہ اسے بہتر ہینڈل کر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنانے کا یہ مثبت پہلو ہے کہ وہ چیزوں کو سیاسی طور پر سمجھتے ہیں اور ماضی میں اپوزیشن کے ساتھ صلح کی بات کرتے رہے ہیں، وہ نوازشریف کو باہر بھیجنے کے بھی حامی تھے۔
اعظم سواتی کا ماضی
رؤف کلاسرا نے اعظم سواتی کو وزیر ریلوے بنانے کے متعلق کہا ہے کہ ان کے خلاف سپریم کورٹ نے سخت ریمارکس دیے گئے ہیں، یہ بہت پیسہ خرچ کرنے کے لیے مشہور ہیں اور انہیں عمران خان کی اے ٹی ایم قرار دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ان کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات چل رہی تھیں تو اعظم سواتی نے اس خوف سے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ کہیں نواز شریف کی طرح مجھے بھی سیاست سے نااہل نہ قرار دے دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹس میں اعظم سواتی کے متعلق کہا گیا تھا کہ 2001 میں انہوں نے امریکی ریاست ٹیکساس میں جعل سازی کر کے ووٹ ڈالا جس کی پاداش میں ان کے امریکہ داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دی گئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2001 میں ہی خیبرپختونخوا میں سیلاب آیا تھا جس میں 62 افراد جاں بحق ہوئے تھے، اس موقع پر اعظم سواتی نے ریلیف فنڈ میں 10 لاکھ ڈالرز کا نوٹ دیا تھا جو بعد میں جعلی نکلا تھا۔
روؤف کلاسرا نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ان کے خلاف ڈھیر سارے فراڈ کے معاملات سامنے آئے تھے اور آج عمران خان نے انہیں اس ریلوے کا وزیر بنا دیا جسے پہلے شیخ رشید نے برباد کیا ہے۔