ایرانی حکومت نے جلا وطنی سے لوٹے ہوئے 47 سالہ صحافی روح اللہ زم کو حکومت کے خلاف احتجاج پر اکسانے کے الزام میں پھانسی دے دی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ روح اللہ نے 2017 کے حکومت مخالف مظاہروں میں اپنی ویب سائیٹ اور آن لائن چینل کے ذریعے مظاہرین کو اکسایا تھا جس سے مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی اور سرکاری خبر رساں ادارے آئی آر این اے کے مطابق روح اللہ زم کو ہفتے کی علی الصبح پھانسی دے دی گئی۔ مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
وطن لوٹنے سے پہلے روح اللہ زم پیرس میں مقیم تھے۔ ان کی گرفتاری کے متعلق تفصیلات غیر واضح ہیں تاہم بتایا جاتا ہے کہ وطن واپس لوٹنے کے بعد انٹیلیجنس حکام کی جانب سے انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
وہ ان کئی اپوزیشن کے افراد میں شامل ہیں جو جلا وطنی کاٹنے کے بعد گزشتہ برس ایران واپس لوٹے تھے۔
یاد رہے کہ جون میں ایک ایرانی عدالت نے روح اللہ زم کو انتشار پھیلانے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان پر مزید الزام ایرانی حکومت کے خلاف جاسوسی کا تھا۔
چند روز قبل ایرانی سپریم کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھی تھی جس کے بعد ملزم کو ہفتے کے روز پھانسی دے دی گئی۔
2017 کے آخر میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے ایران کے لیے 2009 میں ہونے والے ‘گرین موومنٹ’ مظاہروں کے بعد ایک بڑا چیلنج تھے۔ خوراک کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ان مظاہروں کی ابتدائی وجہ بتایا جاتا ہے۔
حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے مخالفین کی جانب سے ایران کے شمال مشرق میں واقع شہر مشہد میں عوام کو صدر کے خلاف اکسانے کی کوشش میں یہ مظاہرے کرائے گئے تھے۔
تاہم جوں جوں مظاہرے شہر سے شہر بڑھتے چلے گئے عوامی غصہ پورے حکمران طبقے کے خلاف پھیل گیا۔ ان مظاہروں میں عوام کی جانب سے نہ صرف ایرانی صدر بلکہ سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے اور انہیں للکارا گیا۔
ان مظاہروں کی تفصیلات اور ویڈیوز روح اللہ زم کے آن لائن چینل پر شیئر کی جاتی تھیں جس کے باعث ان پر مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام دائر کیا گیا تھا اور پھر انہیں عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔