نائجیریا کی شمال مغربی ریاست کتسینا میں واقع اسکول پر مسلح گروہ نے حملہ کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حملے کے بعد 400 سے زائد طلبہ لاپتہ ہو گئے ہیں جن کے اغوا ہونے کا خدشہ ہے۔
والدین اور اسکول کے ایک ملازم نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو آگاہ کیا کہ اسکول کے 800 میں سے تقریباؑ آدھے طلبہ لاپتہ تھے۔ حملہ نائجیریا کے صدر محمدو بوہاری کی آبائی ریاست میں پیش آیا ہے۔
حکام کا کہنا کے کہ پولیس، فوج اور نائجیرین فضائیہ کی جانب سے لاپتہ ہونے والے طلبہ کی تعداد جاننے کی کوششیں جاری ہیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ پر حملہ آوروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا جس کی وجہ سے کچھ طالب علم فرار حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
فائرنگ کے دوران ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ طلبہ کو تلاش کرنے کے لیے مزید نفری بھیجی جائے گی۔
مقامی افراد کی جانب سے خبر رساں اداروں کو بتایا گیا ہے کہ انہوں نے حملہ آوروں کو کچھ طلبہ کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حملہ آور دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
صدر بوہاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج نے اغواکاروں کو ایک جنگل میں ڈھونڈ لیا تھا اور ان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ فوج کو فضائیہ کی بھی مدد حاصل تھی۔ انہوں نے واقعہ کی بھرپور مذمت کی۔
ریاست کتسینا میں تشدد کے واقعات عام ہیں۔ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں کو ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ مقامی افراد پر اغوا برائے تاوان کی خاطر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ملک کے شمال مغربی علاقوں میں مسلحہ گروہوں کی جانب سے حملے بڑی تعداد میں جاری رہتے ہیں۔
نائجیریا کے متعدد علاقوں میں تشدد کے واقعات نے عوام میں شدید غم و غصہ پھیلا دیا ہے۔ گزشتہ ماہ نائیجیریا کی شمال مشرق ریاست بورنو میں درجنوں کسانوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ کچھ کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
2018 میں مسلحہ گروہ بوکو حرام نے نائجیریا کے علاقے داپچی میں 100 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا تھا۔ ایک اور ہولناک واقعے میں چھ سال قبل 2014 میں اسی گروہ نے چبوک کے علاقے میں سے 270 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا تھا۔
اب تک کسی گروہ نے مذکورہ واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم یہ واقعہ بوکو حرام گروہ کی سرگرمیوں کے شمال مشرقی علاقوں سے دور وقوع پذیر ہوا ہے۔