پاکستان کے معروف تجزیہ کار اور اینکر رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ مریم نواز مینار پاکستان میں بڑا جلسہ کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں، اس میں لاہور کے شہریوں کی شرکت بہت کم تھی۔
اپنے نئے وی لاگ میں پی ڈی ایم کے لاہور کے جلسے کا تجزیہ کرتے ہوئے رؤف کلاسرا نے کہا کہ غیرجانبدار لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ عمران خان کے 2011 کے جلسے کے مقابلے میں بہت کم افراد نے آج کے جلسے میں شرکت کی ہے۔ مریم نواز کی آج کی تقریر بھی ان کی ملتان کے جلسے میں کی گئی تقریر کے مقابلے میں کمزور تھی۔
انہوں نے کہا کہ جلسے میں لاہور کے شہریوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ اس سے زیادہ تو روز انارکلی کی طرف نکل آتے ہیں، یہ 11 جماعتوں کا شو تھا جس میں توقعات یہی تھیں کہ بڑی تعداد میں لوگ شرکت کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
لاہوری جلسے میں کم کیوں آئے؟
رؤف کلاسرا کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ناقدین کا خیال ہے کہ لاہور میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بہت زیادہ کام کیا ہے، ان کا لاہور میں زیادہ اثر و رسوخ ہے اور انہوں نے جان بوجھ کر اپنے ورکرز اور عہدیداروں کو متحرک نہیں کیا جس کی وجہ سے جلسے میں شرکت کم رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے ناقدین کے بقول وہ مسلسل نواز لیگ کی قیادت کی گدی پر اپنی جگہ مضبوط کر رہی ہیں، اگر لاہور کا بڑا جلسہ ہو جاتا تو ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو جاتی، اس وجہ سے حمزہ شہباز اور شہباز شریف نے اس جلسے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ایک بڑی وجہ شدید سرد موسم بھی تھا جس کی وجہ سے لوگوں کا جلسے میں آنا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ اس میں نوازشریف بھی خود موجود نہیں تھے، ان کا ویڈیو پر خطاب لوگوں کو لانے کے لیے ناکافی تھا۔
محمود اچکزئی کی پنجاب پر تنقید
رؤف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں محمود اچکزئی کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے وہ خود کو پاکستانی نہیں بلکہ افغانی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محمود اچکزئی نے لاہور میں کھڑے ہو کر جس طرح پنجاب پر تنقید کی ہے، اسے بھی پی ڈی ایم کے مخالفین استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر افغانی ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، بعد میں ایک وقت ایسا آیا کہ ایک پنجابی حکمران رنجیت سنگھ نے افغانیوں سے بڑا علاقہ چھین لیا اور افغانستان انہیں خراج دینے پر مجبور ہو گیا۔
نوازشریف کا لہجہ دن بہ دن تلخ ہوتا جا رہا ہے
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی آج کی تقریر میں سختی کم تھی اس لیے امکان یہی تھا کہ نوازشریف بھی لہجہ نرم رکھیں گے مگر ان کا انداز روز بروز تلخ اور سخت ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے جس طرح بغاوت کے مقدمے درج کرنے کے حوالے سے قواعد میں تبدیلیاں کی ہیں، شاید اس کی وجہ سے مریم نواز نے تقریر میں احتیاط کی ہے مگر نواز شریف کا انداز اسی طرح برقرار رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز اپنی تقاریر میں عمران خان کو نشانہ بناتی ہیں جبکہ نواز شریف کا زیادہ رخ فوجی جرنیلوں کی طرف ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نوازشریف کے اس رویے نے فوج کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا ہے۔
رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ آج کے جلسے سے پی ڈی ایم کا دبدبہ کم ہوا ہے اور انہیں دھچکا لگا ہے، حکومت کو بہت حوصلہ ملا ہے کہ اپوزیشن زیادہ لوگ اکٹھے نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے لیے جنوری کی سردی میں اسلام آباد رہنا آسان نہیں ہو گا، شاید اسی لیے انہوں نے فروری تک معاملہ بڑھا دیا ہے۔