11 مارچ 2021 کو اپوزیشن کے 65 فیصد سے زائد اراکین سینیٹ اپنی 6 سالہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
سینیٹ میں اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق آئندہ سال مارچ میں موجودہ 103 اراکین سینیٹ میں سے 52 اراکین ریٹائر ہو رہے ہیں، جس میں 34 اراکین کا تعلق اپوزیشن جماعتوں جبکہ 18 حکومتی بینچوں سے ہیں۔
یاد رہے قومی اور صوبائی اسمبلی میں پارٹیوں کی پوزیشن سینیٹ میں الیکٹورل کالج تشکیل دیتی ہیں، تاہم اپوزیشن جماعتیں جو حکومت مخالف مہم میں اسمبلیوں سے بڑی تعداد میں استعفے دینے کی دھمکی دے رہیں ہیں، اگر اسمبلیوں سے استعفے نہیں بھی دیتیں تب بھی وہ ایوان بالا میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
واضح رہے سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 104 ہے، تاہم سابق وزیر خزانہ اور مسلم ن کے رہنما اسحاق ڈار نے سینیٹر کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھایا تھا، کیونکہ وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں رہ رہے ہیں۔
نمائندگان کے حساب سے دیکھیں تو ایوان بالا میں پاکستان مسلم لیگ ن کا نقصان سب سے زیادہ ہو گا، کیونکہ اس کے 57 فیصد اراکین 6 سالہ مدت پوری کر کے آئندہ سال مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن سینیٹ میں اراکین کے حساب سے سب سے بڑی جماعت ہے، جس کے موجودہ 30 سینیٹرز میں سے مارچ 2021 میں 17 ارکان ریٹائر ہو جائیں گے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق، پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید مسلم لیگ ن کے وہ مشہور سینیٹرز ہیں جو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
اسی طرح ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، پارلیمانی لیڈر شیری رحمان، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور سابق وزیر قانون فاروق نائیک ان 8 اراکین میں شامل ہیں جو پیپلزپارٹی کے موجودہ 21 سینیٹرز میں سے ریٹائر ہوں گے۔
سلیم مانڈوی والا، رحمٰن ملک اور فاروق نائیک کے دوبارہ سینیٹ میں آنے کے امکانات روشن ہیں، کیونکہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی (این پی) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے دو، دو اراکین اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم)، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک،ایک سینیٹر آئندہ سال مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق بھی ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں شامل ہیں۔
حکمران جماعت تحریک انصاف کے موجودہ 14 سینیٹرز میں سے 7 سینینٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں، جن میں زیادہ تر کا تعلق خیبرپختوخوا سے ہے۔
پی ٹی آئی کے ریٹائر ہونے والے اراکین میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز، محسن عزیز اور نعمان وزیر بھی شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ 2015 میں سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہوئی تھی، تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں میں اسے اکثیریت حاصل ہونے کے باعث یہ ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔
علاوہ ازیں دیگر 18 حکومتی سینیٹرز جو ریٹائر ہونے جارہے ہیں، ان میں 4 کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور 3 کا بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے جبکہ 4 آزاد امیدوار سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ہے۔
پی کے میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ بھی ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن، پارٹی کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری بھی وہ سینیٹرز ہیں جو ریٹائر ہورہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے اراکین سینیٹ میں خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا شامل ہیں۔
اے این پی وہ واحد جماعت ہے جو سینیٹ سے اپنی نمائندگی کے خاتمے کے دہانے پر ہے کیونکہ اس کی واحد رکن ستارہ ایاز بھی ریٹائر ہونے والی ہیں، جس کے بعد اسمبلیوں میں موجودہ پارٹی پوزیشن پر ایوان بالا کے لیے کسی رکن کے منتخب ہونے کا امکان تقریباً نہیں ہے۔
پارٹی مؤقف کے برعکس ستارہ ایاز اے این پی سے اختلاف کرتی ہیں، اور وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف ناکام تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت مبینہ طور پر دھوکا دینے پر نکالے جانے کے بعد سے اپوزیشن کا باقاعدہ حصہ بھی نہیں بن رہیں۔
واضح رہے سینیٹ 104 اراکین پر مشتمل ہے، تاہم آنے والا سینیٹ 98 اراکین پر مشتمل ہوگا کیونکہ ملک کے قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد 4 خالی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے۔
ایک سینیٹر کی مدت 6 سال ہے مجموعی تعداد میں سے 50 فیصد ہر 3 سال بعد ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔
خیال رہے سینیٹ کے انتخابات ہمیشہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن پر انحصار کرتے ہیں۔