اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہریوں کو فراہمی انصاف میں تاخیر سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ریاست اگر کرپٹ ہو جائے تو اسے بلیک میل کیا جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ آئین میں شہریوں کو جلد اور فوری انصاف کی فراہمی کا لکھا گیا ہے، انہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتیں دیکھ لیں، آپ نے کس حال میں بنا رکھی ہیں اور شہریوں کو وہاں کتنے مسائل درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو رپورٹس آپ جمع کراتے ہیں، ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، عملاً بتائیں کیا، کیا ہے؟َ
ان کا کہنا تھا کہ تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے ہیں اور الزام عدالتوں پر آتا ہے، انہوں نے کہا کہ 10 دن کا وقت ہے، ہمیں کوئی عملی حل بتائیں، ورنہ اعلیٰ ترین عہدیدار کو طلب کریں گے۔
بعدازاں عدالت نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو 24 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔
چیف جسٹس نے وفاقی دارالحکومت میں نئے سیکٹر کی تعمیر سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی درخواستوں پر سماعت کے دوران حکومت اور سی ڈی اے حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کچھ عرصے سے ہمیں پتہ چلا کہ اسلام آباد میں تو ریاست نام کی چیز سرے سے موجود ہی نہیں، ہم نے اس شہر کے منتخب نمائندوں کو شامل کر کے کمیشن بنایا، مگر وہ بھی مسائل حل نہیں کر سکے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ریاست کرپٹ ہو جائے تو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے، ورنہ کس کی جرات ہے ریاست کو بلیک میل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے صرف ایف سکس اور ایلیٹ کلاس کی خدمت میں لگی ہے، باقی اسلام آباد کا حال جا کر دیکھیں، بااثر لوگوں نے معاوضے بھی لے لیے، لیکن عام شہریوں کو نہ تو معاوضہ ملا اور نہ ہی متبادل پلاٹس، نیب سے پلی بارگین کرنے والے کرپٹ بھی بعد میں سرکاری پلاٹس لیتے رہے۔