چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کے معاملے میں حکومت کو ٹانگ نہیں اڑانے دیں گے۔
سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز پر کرشنگ پابندی کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کردیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک جانب سے کرشنگ کی اجازت دے دی گئی تو پوری مارگلہ ہلز کرش کر دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کرشرز چاہتے ہیں کہ نیشنل پارک ختم ہوجائے، عوام کے جینے کے حق کو ڈسٹرب نہیں کیا جا سکتا، مارگلہ ہلز کو بچانے کا بیڑا سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موٹروے پر سفر کریں تو کرش شدہ مارگلہ ہلز دیکھ کر شدید تشویش ہوتی ہے، پہلے درختوں کو کاٹ کر پہاڑی کو بنجر بنایا جاتا ہے، پھرپہاڑی ہی اڑا دی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کرشنگ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرشنگ روکنے کا حکم ہم نے وسیع ترقومی مفاد میں دیا تھا کیونکہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ملک کا ماحول تباہ ہو کر رہ جائے گا، دنیا بھر میں ماحولیات کے تحفظ کیلئے کام ہو رہا ہے۔
اس موقع پر بیرسٹر اعتراز احسن نے کہا کہ سی پیک روڈ کی تعمیر کیلئے بہترین لائم سٹون میٹیریل اسی پہاڑی میں دستیاب ہے، انہوں نے کہا کہ یہاں سے پتھر نکالنے کی اجازت دینا بھی قوم کے مفاد میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قوم کے مفاد کی نہیں کرشر کے مالیاتی مفاد کی بات کر رہے ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ معدنیات ہمارا قومی اثاثہ ہیں، جن سے ہمیں استفادہ کرنا ہے۔
اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اثاثہ ہیں، اسی لئے ہم نے اس کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔
اس پر اعتزاز احسن نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مچھیرے کو مچھلی کا شکار کرنے سے روک دیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس کے جواب میں کہا کہ مچھیرے کو مچھلی کے شکار کی اجازت سے نہیں روکتے کیونکہ مچھلی دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ پہاڑ ایک دفعہ توڑ دیا جائے تو دوبارہ نہیں بنتا۔
اعتزاز احسن نے عدالت سے شکوہ کیا کہ عدالت نے جونہی حکم دیا حکومت نے سارا علاقہ بلاک کر دیا، ہماری مشینری اور مال بھی وہیں پھنس گیا۔
چیف جسٹس نے اس کے جواب میں کہا کہ عدالت کے حکم پر حکومت نے عمل کرنا ہی تھا، آپ کو مشینری اٹھانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کرشرز کو مشینری اٹھانے کی اجازت دیتے ہوئے کرشنگ کی اجازت کی درخواست مسترد کردی۔
سماعت کے دوران میٹرو پولیٹین اسلام آباد سے سی ڈی اے کو اختیارات کی منتقلی پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قائم قام میئر اسلام آباد کو فوری طلب کرلیا۔
چیف کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ سٹریٹ لائٹس، سڑکوں کی تعمیر سمیت پانچ اختیارات سی ڈی اے کو عارضی طور پر دیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے میئر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اسلام آباد کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں؟
عدالت نے کہا کہ آپ نے سارے اختیارات سی ڈی اے کو دے دیے ہیں، آپ صبح سے شام تک دفتر میں کیا کرتے ہیں؟
اس پر میئر اسلام آباد نے کہا کہ کرنے کو کچھ بھی نہیں، صبح سے شام تک دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں مقامی حکومت کے پاس اختیارات نہیں، کراچی میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں پبلک ٹوائلٹس کا کیا بنا، وفاقی دارالحکومت کے کمشنر نے کہا کہ 100 پبلک ٹوائلٹس بنا رہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 100 ٹوائلٹس سے کیا ہو گا، سڑک کے ساتھ ہر کلومیٹر بعد پبلک ٹوائلٹ ہونا چاہئے۔
کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ 100 میں سے 10 بنا دیے ہیں، باقی ٹوائلٹس اگلے مرحلے میں بنائیں گے، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسلام آباد میں 500 پبلک ٹوائلٹس بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلیو ایریا میں سروس روڈ پر پارکنگ ایریا بنا ہوا ہے، سڑک کے قریب پارکنگ کی اجازت نہیں ہوگی، اسلام آباد میں شاپنگ مالز اور مارکیٹس میں پارکنگ ایریا نہیں، شاپنگ مالز ختم کر دیں یا انہیں کہیں اپنی پارکنگ کی جگہ بنائیں۔
کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو کہا کہ آج ہی آئی جی اسلام آباد کو عدالت کے حکم سے آگاہ کر دیں گے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ بلیو ایریا میں جو نئی عمارتیں بن رہی ہیں شاید ان میں پارکنگ کی جگہ نہیں رکھی گئی، اس پر کمشنر نے بتایا کہ ہم نے تمام نئی بلڈنگز کے مالکان سے کہہ دیا ہے کہ اپنی پارکنگ بنائیں، پارکنگ کے مسائل حل کرنے کیلئے ماہرین کی خدمات لے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کریں گے، بعد ازاں کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔