نیویارک ٹائمز کیلئے کام کرنیوالے صحافی ٹِم ہیریرا میں جب کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئیں تو وہ وائرس کی تصدیق کیلئے ایک تکلیف دہ مرحلے سے گزارے۔
اس حوالہ سے انہوں نے ”نیویارک ٹائمز“ میں ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں کورونا وائرس کی تصدیق کیلئے اپنا ذاتی کٹھن اور کنفیوژن سے بھرپورتجربہ شئیرکرتے ہوئے امریکی ہیلتھ کئیر نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ٹم ہریرا کے مطابق کورونا وائرس ٹیسٹ کیلئے انہوں نے پانچ امریکی ہیلتھ کئیر فرمز کو درجنوں کالز کیں۔ دو گھنٹہ انہیں کالز کے دوران ہولڈ پر رہ کر میوزک سننا پڑا۔
اس کے علاوہ انکے دو گھنٹے اسپتال میں گزرے اور کورونا وائرس کی تصدیق کیلئے انہیں 4 روز انتظار کرنا پڑا۔ ان کا زیادہ تر وقت کنفیوژن میں گزرا۔
ٹم ہریرا کے مطابق کورونا وائرس کی تشخیص سے پانچ روز قبل جب وہ صبح بیدار ہوئے تو انہیں کھانسی تھی اور سردی لگ رہی تھی، انہوں نے سب سے پہلے کورونا وائرس کی علامات کو گوگل کیا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنا بخار چیک کیا تو وہ 100 ڈگری کے قریب تھا۔ ٹم ہریرا کے مطابق انکی علامات شدید نہیں تھیں۔
انکے مطابق کورونا وائرس کا مرض ”میڈیم گریڈ فلو“ جیسا ہے جس میں زیادہ کھانسی کے علاوہ سینے میں درد بھی ہوتا ہے۔
ٹم کا کہنا ہے کہ جن مریضوں میں کورونا وائرس کی علامات شدید نوعیت کی ہوں انہیں امریکہ میں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ شئیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں اور انکے روم میٹ کو کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے کیلئے اپنے اپارٹمنٹ سے اسپتال تک 40 منٹ پیدل چل کر جانا پڑا کیونکہ انہیں فون پر نرس نے ٹیکسی یا پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال سے منع کر دیا تھا۔
ٹم ہریرا نے سوال اٹھایا ہے کہ اگرچہ ہم دونوں میں علامات ہلکی نوعیت کی تھیں لیکن جس مریض میں کورونا وائرس کی علامات شدید ہوں وہ اتنا دور پیدل چل کر کیسے جاتا؟
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ان کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جن اداروں کی کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں کی مدد کرنے کی ذمہ داری ہے وہ بھی اتنے ہی کنفیوز ہیں جتنے اس وبا کی وجہ سے پریشان لوگ کنفیوز ہیں۔