چین اور اٹلی کے بعد ایران ایسا ملک ہے جہاں پر کورونا وائرس نے اب تک زیادہ تباہی پھیلائی ہے جس سے سینکڑوں اموات واقع ہوچکی ہیں۔
پاکستان میں بھی اس وقت ایران سے واپس آنیوالے زائرین کی تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں ٹھہرائے جانے کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے باہر آچکی ہیں اور یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں ایران سے واپس آنیوالے زائرین کو بغیر کسی پیشگی تیاری کے قرنطینہ سینٹر میں ٹھہرانے سے کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
بغیر کسی پروٹوکول اور مناسب انتظامات کے قرنطینہ سینٹر عوام کے لیے موت کا کنواں ثابت ہوا جہاں پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کیا گیا اور وہاں خوراک و دیگر سہولیات نہ ہونے سے لوگوں نے فرار ہونے کی کوششیں کیں ۔
دوسری جانب دیکھاجائے تو ہمسایہ ملک بھارت نے ایران میں پھنسے اپنے طلباء اور زائرین کی بحفاظت واپسی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش نہ سہی قابل اطمینان ضرور ہیں۔
ایران میں پھنسے بھارت کے 336 افراد اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ کارگل سے 850 زائرین اور 400 طلباء اب بھی ایران میں موجود ہیں جن کی بحفاظت واپسی کیلئے ایران میں موجود بھارتی سفارتخانہ متحرک ہے۔
ایران میں بھارتی زائرین، طلباء اور ماہی گیروں کی زندگیوں کی حفاظت کے پیش نظر بھارت نے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے 6 سائنسدانوں کو ایران میں تعینات کیا ہے اور وہاں پر لیبارٹری قائم کرنے کے لیے سامان بھی پہنچایا جارہا ہے تاکہ ایران میں موجود بھارتی شہریوں کے کورونا ٹیسٹ وہاں پر کیے جائیں۔
ایسے افراد جن کا ٹیسٹ نیگٹو آتا ہے انہیں گروپس کی شکل میں بھارت واپس لایا جا رہا ہے جبکہ پازیٹو ٹیسٹ کے حامل افراد کوایران کے اندر ہی قرنطینہ میں رکھا جائے تاکہ ان کی واپسی سے بھارت وائرس پھیلنے کا خطرہ کم ہو سکے۔
بھارت کے ڈاکٹرز اس وقت ایران میں موجود ہیں اور ایران میں بھارتی سفارتخانہ پوری طرح اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے متحرک ہے۔
بھارت سے آئے ڈاکٹرز نے ایران میں موجود 800 زائرین و طلباء میں سے 650 کے کورونا ٹیسٹ رزلٹ کے لیے بھارت بھجوا دیے ہیں جن کی رپورٹس آنے پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کتنے افراد کو بھارت واپس لے جایا جائے گا۔
ایران کی شیراز یونیورسٹی میں زیر تعلیم چار سو کشمیری طلباء کے کورونا ٹیسٹ بھی ایران میں لیے گئے ہیں جنہیں رپورٹس کے لیے بھارت بھجوایا گیا ہے جس کے بعد امید ظاہر کی جارہی ہے کہ ان طلباء کو اگلے ہفتے بھار ت واپس لایا جائے گا۔
بھارت کے سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر کے مطابق ایران میں پھنسے 234 بھارتیوں کو ایئر انڈیا کی دو پروازوں کے ذریعے ایران سے راجستھان میں لایا گیا ہے جنہیں انڈین آرمی ویل نس سینٹر جیسلمیر میں رکھا گیا ہے۔
اس طریقے سے بھارت ابھی تک کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب رہا ہے۔
اس وقت جبکہ بھارت اپنے شہریوں کو راجھستان کے جیسلمیر جیسے شہر میں ٹھہرا رہا ہے تاکہ گنجان آباد علاقوں میں وائرس نہ پھیلے تو دوسری جانب پاکستانی حکومت نے تفتان بارڈر سے 20 گاڑیوں میں زائرین کو بھر کر 1300 کلومیٹر دور بہاولپور پہنچا دیا جو پہلے ہی طبی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔
حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ تمام تر وسائل اپنے بارڈر پر حفاظتی اقدامات میں صرف کرتی اور وہاں ایسا قرنطینہ سینٹر بنایا جاتا جس میں تمام طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء اور رہائش کے بہتر انتظامات کیے جاتے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایرانی زائرین پورے ملک میں پھیل گئے ہیں اور حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے چین کے صوبہ ووہان میں پھنسے پاکستانی طلباء کو تووطن واپس لانے میں پھرتی نہیں دکھائی لیکن ایران میں موجود پاکستانی زائرین کو نہ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے قبل پاکستان آنے کی اجازت دی بلکہ تفتان بارڈرکے قرنطینہ سینٹر سے ایرانی زائرین کو اندرون ملک فرار کرانے میں بھی معاونت فراہم کی۔
سوشل میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کے ردِ عمل میں زلفی بخاری مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویوز کے ذریعے اس تاثر کو رد کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ ایرانی زائرین کی وطن واپسی میں ان کا کوئی کردار ہے۔
ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام میں اینکر منصور علی خان سے گفتگو میں زلفی بخاری نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کو سب سے بڑا وائرس قرار دیدیا۔
انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایران سے پاکستانی زائرین کی وطن واپسی میں ان کا کوئی کردار ہے۔