وزیر اعظم عمران خان اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں اٹلی جیسی تیزی آئی تو مریضوں کی نگہداشت مشکل ہوجائے گی۔
اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے ملاقات میں کہا کہ چین میں جب کورونا وائرس کی وباء پھیلی تو ہم اس پر نظر رکھے ہوئے تھے، چینی حکومت سے مسلسل رابطہ رکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چین کے ورکرز یہاں پر کام کررہے ہیں اور ہمیں خدشہ تھا کہ یہ وائرس چین سے پاکستان آئے گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم کورونا معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کریں گے اور اس کی روک تھام کے لیے چین کے تجربات سے استفادہ کریں گے اورجو بھی صورتحال ہوئی عوام کے سامنے رکھیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ جب قم سے زائرین واپس آنا شروع ہوئے تو ہم ایرانی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے کہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا تفتان گئے اور وہاں کے حالات دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ بہت برے حالات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتان میں زائرین کی اسکریننگ کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔ اس کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر سہولیات فراہم کیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کسی کی غلطی نہیں، وزیر اعلیٰ جام کمال پر الزام لگانا زیادتی ہوگی کیونکہ وہ کافی مشکلات سے گزرے ہیں اور ہم سے مسلسل رابطہ میں تھے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ایران سے پابندیاں ہٹائی جائیں، وہ اتنی بڑی وبا سے نمٹ رہے ہیں، یہ پابندیاں بہت بڑا ظلم ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چین میں موجود طلبہ کے والدین کی وجہ سے ان پر بہت دباؤ تھا کہ ان کو پاکستان لایا جائے لیکن وہاں کی حکومت نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ہم ان کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک بھی کیس چین سے نہیں آیا جو ان کی تنظیمی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عمران خان نے خبردار کیا کہ اگر یورپ کی طرح یہ وبا پاکستان میں پھیلتی ہے تو 4 سے 5 فیصد اسپتالوں کو آئی سی یو کی ضرورت پڑے گی اور اگر تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹلی میں انہیں اسٹاف نہیں مل رہا، نرسز نہیں مل رہیں ، ڈاکٹرز نہیں مل رہے اور سب سے بڑھ کر آئی سی یو وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے۔
قوم کے نام پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا اب بہت ضروری ہے، اس سے بچنے کے لیے عوام کو خود منظم ہونا پڑے گا جو ہمیں اس مشکل مرحلے سے نکالے گا۔
انہوں نے بتایا کہ تافتان سے آنے والے کیسز کے علاوہ پاکستان میں اب تک یہ وائرس قابو میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر ڈیڑھ ماہ تک عوامی مقامات تک نہ جائیں اور بیماری کی علامات ظاہر ہونے پر خود کو محدود (قرنطینہ) کر لے تو اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپتال جانے سے زیادہ ضروری چیز خود کو الگ تھلگ کر لینا ہے کیونکہ 90 فیصد لوگوں کو اسپتال کی ضرورت نہیں پڑتی۔