کل حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ پاک-افغان بارڈر، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے کھول دیا جائے اور یوں ایک بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ اقدام درست ہے؟
پہلے ہی ایک بحث چل رہی ہے ملک میں کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں، وزیراعظم کہتے ہیں کہ اگر لاک ڈائون کردیا تو دہاڑی پہ کمانے والا طبقہ اپنا پیٹ کیسے پالے گا اور ملک میں افراتفری بھی پھیل سکتی ہے۔
یہ بات کسی حد تک مان بھی لی جائے کہ واقعی یہ طبقہ بڑی مشکلات سے دو چار ہو سکتا ہے لیکن کیا یہی طبقہ خدانخواستہ اگر اس وائرس کی زد میں آگیا تو کیا وہ اس قابل ہے کہ اس موذی مرض کا علاج کرا سکے؟ کیا وہ خود اس مرض کا شکار ہوکر اپنے خاندان اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی خطرے میں نہیں ڈال دے گا؟
انگریزی میں کہتے ہیں کہ Desperate times need desperate measures اور یقیناً وہ وقت آ چکا ہے جب وزیراعظم کو ایسے دلیرانہ فیصلے کرنے ہونگے، ان فیصلوں میں دیر ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ حکومت کن خوش فہمیوں کا شکار ہے، دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کے سامنے بے بس اور لاچاری کا شکار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور یہاں روزانہ یہی بتایا جاتا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے اور گھبرانا نہیں ہے!
چین گھبرا گیا، اٹلی نے تو ہتھیار تک ڈال دیے ہیں، برطانیہ کا صرف صحت کیلئے بجٹ 146 ارب پاؤنڈ ہے اور وہ پھر بھی پریشان ہیں کہ اب کیا کیا جائے۔ پاکستان میں وینٹلیٹر کی تعداد صرف 1700 ہے اور آبادی 22 کروڑ! اب سوچئے کہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹا جاسکے گا؟
حکومت کا لاک ڈائون نہ کرنا اور افغان بارڈر کھولنے کا فیصلہ دیکھ کر کہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ “آن دے استاد”