وزیر اعظم عمران خان عام طور پر میڈیا سے بہت شاکی رہتے ہیں مگر جب بھی ملک کو مشکل صورتحال کا سامنا ہو تو ان کی جانب سے عوامی آگاہی اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے میڈیا کے سینئر اینکرز اور صحافیوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔
پلوامہ واقعہ کے بعد پاک بھارت کشیدگی ہو یا بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد کی صورت حال، پاکستانی میڈیا نے عمران خان حکومت کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا۔
اسی سلسلہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے آج انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کی، تاہم ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ عامر متین، رؤف کلاسرا، ارشد شریف، محمد مالک، حامد میر جیسے صحافی اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔
حکومت اس وقت کورونا وائرس کے کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کررہی ہے، شاید اسی وجہ سے وزیراعظم حکومت کے سخت نقادوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اسی طرح آج کی بریفنگ میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی پارٹی کا کوئی بھی منتخب نمائندہ موجود نہیں تھا.بریفنگ ہال میں ایسے لوگ نظر آئے جو عوام کی نمائندگی کے بجائے کسی کی پرچی کا نشان چہرے پر سجائے ہوئے تھے۔
حیرانی کی بات ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے زلفی بخاری پر ایرانی سرحد کھولنے کے حوالے سے الزامات لگ رہے تھے لیکن یہ بات نوٹ کی گئی آج کوئی اینکر اور صحافی وزیراعظم عمران خان سے اس معاملے پر سوال پوچھنے کی جرات نہ کر سکا۔
وہ سب لوگ جو ٹی وی شوز میں زلفی بخاری پر سوالات اٹھا رہے تھے، ملاقات کے دوران وزیراعظم سے کوئی سوال نہ پوچھ سکے۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں ایسا تاثر دیا جیسے تفتان باڈر پر ایران سے آنے والے زائرین کو کورونا ٹیسٹ اور قرنطینہ کے بغیر پاکستان کے اندر بھیجنے کا فیصلہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا تھا اور ان پر ناجائر تنقید ہورہی تھی۔
اس کا مطلب یہ بھی سمجھا گیا کہ زلفی بخاری کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاہم نہ صحافیوں نے زلفی کا نام لینے کی جرات کی اور نہ ہی وزیراعظم نے ان کا ذکر کیا۔ یوں سب بات گول کرتے ہوئے صرف وزیراعلیٰ بلوچستان کا ذکر کیا گیا جیسے سارا فیصلہ اکیلا انہوں نے کیا تھا اور ان پر ہونے والی تنقید ناجائز تھی۔
آج کی میڈیا بریفنگ میں بھی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھی اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ چین سے ایک بھی کورونا کیس پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوا اور جتنے بھی کیسز ابھی تک سامنے آئے ہیں یہ ایران سے آنیوالے زائرین کے ہیں۔
ایک بات اور بھی واضح تھی کہ آج کی بریفنگ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری موجود نہیں تھے حالانکہ وہ سمندر پار پاکستانیز کے امور کے نگران ہیں، اس سے واضح ہوتا تھا کہ ان کی موجودگی میں شاید میڈیا کا دھیان ان کی جانب ہوجاتا اس لیے انہیں سامنے نہیں آنے دیا گیا۔
بارڈر کنٹرول جب وفاقی مضمون تھا اور اس سارے معاملے میں زلفی بخاری اور ڈاکٹر ظفر مرزا تمام بریفنگز میں شریک تھے تو اتنے کم وسائل کے حامل صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو ایرانی زائرین کی پاکستان آمد کا ذمہ دار کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
یہ ایک اہم سوال تھا جو اس ملاقات میں پوچھا جانا چاہیے تھا۔