جیسے ہی کورونا وائرس کی وبا کا انکشاف ہوا خبروں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے کچھ رپورٹرز کوروناوائرس سے متعلق خبروں کی بہتات کی وجہ سے انتہائی دباؤ کا شکار ہیں، جبکہ بہت سے رپورٹرز کے لیے کام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کی صبح ریڈیو 4کی نیوز ریڈر ڈیانا اسپیڈ، کین فنلیسن کے ساتھ انٹرویو سے متعلق بتاتے ہوئے اچانک جذباتی ہو گئیں۔ کین فنلیسن جن کی52 سالہ بیوی کمبرلے کورونا وائرس کے باعث دوران سرجری بالی میں انتقال کر گئیں۔
اس کے علاوہ امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایم ایس این بی سی کی نیوز اینکر راچل میڈو اپنی ساتھی اینکر لیری ایج ورتھ (جو کہ کورونا وائرس سے انتقال کر گئیں ہیں) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں۔
وہ صحافی جو عوام کی خدمت میں لمحہ بہ لمحہ معلومات/نشریات پیش کر رہے ہیں، ان صحافیوں کو بھی ایسے کڑے وقت میں طبی کارکنوں اوردیگر عوامی خدمات فراہم کرنے والے افراد کی طرح اہم کارکنوں کی سی حیثیت دی گئی ہے۔
آئی ٹی وی ویلز کے نمائندے روب اسبورن رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں جن کے لیے اس وائرس پر رپورٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں نبھانا کافی مشکل ہو چکا ہے۔
اسکے چچا ڈاؤون سنڈروم بیماری کے مرض میں مبتلا ہیں جن کی دیکھ بھال ان کی والدہ اور وہ خود کرتے ہیں۔اس وبا کی وجہ سے وہ کئی دنوں سے اپنے چچا کو باہر سیر کرانے نہیں لے جاسکا ۔
اس ہفتے ایک ادارتی اجلاس میں روب کی ماں کورونا وائرس کی صورت حال جاننے کے لیے ان کو بار بار فون کر رہی تھیں جسکے باعث روب کو میٹنگ پر توجہ دینا مشکل ہو گیا ۔
بے شک وضاحت اور معلومات کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے "Hold their hands” (ان کے ہاتھ تھامو) ایک جملہ جو آ جکل سینئر ایڈیٹر ز استعمال کر رہے ہیں ، یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس جملے کی تشہیر کریں۔
شاید یہ ہماری سب سے بڑی اسٹوری ہے جس کا ہم نے احاطہ کیا ہے۔ عوام اس مشکل وقت میں معلومات کے لیے ہم سے رجوع کر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کورونا وائرس کے اثرات ملک پر آنے والے ھفتوں اور مہینوں تک رہیں گے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں کو اپنے حوصلے قائم رکھنا ہو نگے۔
اسبورن نے کہا کہ یہ ایک میراتھن ہے اور ہمیں کامیاب ہونے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
جاب سکیورٹی ایک اور اہم ایشو ہے جو کہ صحافیوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے، ان میں سے بہت سارے فری لانسر ہیں اور قانونی طور پر بیماری کی صورت میں Sick Pay کے حقدار نہیں۔
فی الحال ذاتی کاروبار والوں کے لیے بھی کوئی تحفظ نہیں ہے۔ ایک سپورٹس جرنلسٹ نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کھیلوں کے تمام ایونٹس منسوخ ہوگئے جس کی وجہ سے اب اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک باپ اور شوہر ہونے کے ناطے میری کچھ معاشی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے میرے پاس محدود فنڈ ہے۔
ہیتھیکل جرنلزم نیٹ ورک کی ڈائریکٹر ہانا سٹارم نے لکھا کہ نیوز آرگنائزیشنز کو دہائیوں کا کام دنوں میں کرنا پڑ رہا ہے ۔
بی بی سی نے دی گارڈین کو بتایا کہ کورونا وائرس ہم سمیت ہر کسی کے لیے ایک دلخراش کہانی ہے ۔ بی بی سی اپنے ملازمین کی ہر ممکن سپورٹ کیلئے سنجیدگی اور ذمہ داری سے کام کر رہی ہے۔