دبئی: متحدہ عرب امارات کی ایک سول عدالت نے ایک شوہر کا مقدمہ مسترد کر دیا جس میں اس نے اپنی مرحومہ بیوی کے ایک رشتہ دار کے خلاف 40 ہزار درہم کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا، جو اس کے بقول جہیز کی باقی رقم تھی۔
شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ کل 80 ہزار درہم جہیز میں سے اس کی بیوی کو صرف 40 ہزار درہم ملے تھے جو زیورات اور ذاتی اخراجات پر خرچ ہوئے، جبکہ باقی رقم رشتہ دار کے پاس اس کی موت تک موجود رہی۔
اس نے مزید کہا کہ رشتہ دار نے بارہا رقم واپس کرنے کا وعدہ کیا لیکن ایسا نہ کیا، جس پر وہ مقدمہ دائر کرنے پر مجبور ہوا۔ شوہر نے 9 فیصد سالانہ منافع کے ساتھ رقم کی واپسی، قانونی اخراجات اور اپنے اور اپنے بچوں کو پہنچنے والے مالی و جذباتی نقصان کے ازالے کے طور پر اضافی 10 ہزار درہم کا مطالبہ بھی کیا۔
مدعی نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ صلح کمیٹی کے سامنے رشتہ دار پہلے ہی یہ اعتراف کر چکا تھا کہ اس نے جیز کی رقم وصول کی تھی۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مرحومہ بیوی کو پوری رقم نہیں ملی تھی۔ ججوں نے نوٹ کیا کہ ثبوت فراہم کرنا دعوے دار کی ذمہ داری ہے اور “اصل مفروضہ یہ ہے کہ قرض موجود نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا ثبوت نہ ہو۔”
عدالت نے قرار دیا کہ شوہر کے دلائل ناکافی شواہد پر مبنی ہیں، اس لیے مقدمہ خارج کرتے ہوئے اسے عدالتی فیس اور اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا۔