تحریر : رافعہ زاہد
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد منعقدہ او آئی سی اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس نے مسلم دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ مسلم ممالک ایک مشترکہ دفاعی فورس قائم کریں، جو نیٹو کی طرز پر مسلم دنیا کی اجتماعی سلامتی کو یقینی بنائے؟ اجلاس میں کئی رہنماؤں نے اس تجویز کو سراہا اور بعض نے اسے وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا۔ پاکستان کے اندر بھی حکومت اور اپوزیشن سمیت مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس خیال کی حمایت کر کے ایک غیرمعمولی اتفاقِ رائے کی مثال قائم کی۔
اسلامی دفاعی فورس کے قیام کے تناظر میں Abraham Accord کا ذکر بھی اہم ہے، کیونکہ یہ معاہدہ اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان دپلومیسی، تجارت اور سلامتی کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے signatories میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان شامل ہیں، اور یہ معاہدہ 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں دستخط کیا گیا۔ اگر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ ہو جائے تو اسرائیل کے تعلقات میں واضح تناؤ پیدا ہوگا، تجارتی اور سفارتی روابط محدود ہو جائیں گے، اور خطے میں سلامتی کے توازن پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم دفاعی فورس کے قیام کے امکانات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ اس اتحاد کی ضرورت اور اہمیت Abraham Accord کے تعلقات کے پس منظر میں زیادہ واضح ہوتی ہے
ماضی کی کوششیں۔۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلم دنیا میں اجتماعی فوجی اتحاد کی بات ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی مختلف اقدامات سامنے آئے: پیننسولا شیلڈ فورس (1984) خلیجی تعاون کونسل کے تحت قائم ہوئی اور علاقائی سلامتی تک محدود رہی، جبکہ 2015 میں سعودی قیادت میں بننے والے “اسلامی فوجی اتحاد برائے انسدادِ دہشت گردی” کا دائرہ کار دہشت گردی تک محدود رہا۔ یہ اقدامات اس بات کے ثبوت ہیں کہ مسلم دنیا اجتماعی سلامتی کی ضرورت کو تسلیم کرتی رہی ہے، مگر ایک ہمہ جہت فوجی اتحاد کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
موجودہ منظرنامہ۔۔
دوحہ اجلاس میں مسلم رہنماؤں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ آئندہ کسی بھی حملے کا جواب اجتماعی طور پر دیا جانا چاہیے۔ خلیجی تعاون کونسل نے اپنے مشترکہ دفاعی میکانزم کو فعال کرنے کا اعلان کیا اور بعض ممالک نے کھلے الفاظ میں کہا کہ مسلم دنیا کو “مسلم نیٹو” کے قیام پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بھی یہ بحث تیزی سے ابھری اور کئی سیاسی و سماجی شخصیات نے اس تجویز کی کھل کر حمایت کی، بیرسٹر عقیل ملک اور بیرسٹر علی ظفر نے بھی حامد میر کے پروگرام میں بیٹھ کر اس تجویز کی کھل کر حمایت کی۔ اس بات سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو گیا کہ پاکستان کے اندر بھی حکومت، اپوزیشن اور مختلف مکاتبِ فکر اس نقطے پر اتفاقِ رائے رکھتے ہیں۔
مشکلات اور رکاوٹیں۔۔
اسلامی دفاعی فورس کے قیام کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ مسلم دنیا کے اندر موجود سیاسی اختلافات ہیں۔ خطے کے بڑے کھلاڑی جیسے ایران، ترکی اور خلیجی ممالک کی خارجہ پالیسیز اور اسٹریٹجک ترجیحات ایک جیسی نہیں ہیں، جو اعتماد سازی اور مشترکہ فیصلے کو مشکل بناتی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک اپنی قومی خودمختاری اور فوجی طاقت کو کسی مرکزی ادارے کے حوالے کرنے میں احتیاط کرے گا؛ کسی ملک کا اپنا دفاعی نظام، کنٹرول اور پارلیمانی منظوری کی روایات ہوتی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپریشنل اور تکنیکی سطح پر بھی مسائل سنگین ہیں افواج کے تربیتی معیار، کمانڈ ڈھانچے، مواصلاتی نظام اور زبانیں مختلف ہیں، جس سے مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول قائم کرنا اور مشترکہ آپریشنز کو ہم آہنگ کرنا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ مالی اور لوجسٹک تقاضے بھی کم نہیں؛ مشترکہ فورس کے لیے سازوسامان، تربیت اور مستقل سپلائی لائنز کا بندوبست بہت مہنگا ہوگا اور اس کے لیے ایک شفاف اور قابلِ قبول فنڈنگ ماڈل درکار ہوگا۔ مزید برآں، بین الاقوامی سطح پر اس اقدام پر بیرونی طاقتوں کا ردِ عمل بھی امکانات میں شامل ہے ، امریکہ، یورپ یا دوسرے خطی کھلاڑی اس کو اپنے مفادات کے خلاف دیکھ سکتے ہیں، جس سے ڈپلومیٹک دباؤ یا سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ آخرکار، بعض ممالک کے حساس دفاعی اثاثے اور نیوکلیئر صلاحیتیں بھی ایک الگ چیلنج ہیں ان اثاثوں کے کنٹرول اور شراکت داری کے سوالات سے اختلافات جنم لے سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ رکاوٹیں واضح کرتی ہیں کہ اگر اسلامی دفاعی فورس کو عملی شکل دینی ہے تو اس کے لیے مرحلہ وار اعتماد سازی، شفاف قانونی فریم ورک، قابلِ قبول مالیاتی انتظام اور طویل المدتی سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی۔
امکانات اور امیدیں۔۔
ان مشکلات کے باوجود اگر مسلم ممالک سیاسی بصیرت اور حکمتِ عملی سے کام لیں تو یہ فورس کئی فوائد لا سکتی ہے۔دنیا کی بڑی فوجی قوتیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آ سکتی ہیں، مظلوم مسلم خطوں کے لیے زیادہ مؤثر امداد ممکن ہو گی، اور مسلم دنیا عالمی سطح پر ایک نیا توازن قائم کر سکتی ہے۔ پاکستان میں ابھرنے والا اتفاقِ رائے ایک مثبت اشارہ ہے؛ اگر یہی جذبہ دیگر مسلم ریاستوں میں بھی فروغ پائے تو یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
اسلامی دفاعی فورس کا قیام ایک پرکشش مگر دشوار خواب ہے۔ تاریخ اس سمت میں کی گئیں کوششوں کی گواہ ہے، اور آج کا بین الاقوامی منظرنامہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ اس خیال پر سنجیدہ غور کیا جائے۔ تاہم، عملی عملیت کے لیے سیاسی ہم آہنگی، شفاف قوانین، قابل عمل مالیاتی انتظام اور بین الاقوامی ڈپلومیسی کا محتاط توازن ضروری ہوگا بصورتِ دیگر یہ منصوبہ محض نظریاتی بحث ہی رہ جائے گا