چندی گڑھ: 73 سالہ دادی جو 30 سال سے امریکا میں رہ رہی تھیں، ’’ جنہوں نے سب کچھ درست طریقے سے کیا، کام کیا، ٹیکس ادا کیا اور کبھی امیگریشن کی تاریخ مس نہیں کی‘‘، وہ ظالمانہ انداز میں ملک بدر کیے جانے پر دل شکستہ ہیں ۔پرواز میں انہیں اپنی دوائیاں تک لینے کی اجازت نہ ملی اور دورانِ حراست ایک بار کھانے کے بجائے برف کی پلیٹ تھما دی گئی۔
ہرجیت کور نے جذباتی انداز میں کہا: ’’اتنے عرصے وہاں رہنے کے بعد اچانک آپ کو حراست میں لے کر اس طرح ڈی پورٹ کر دیا جائے تو یہ جینے سے زیادہ مرنے کے مترادف ہے۔ ایسی حالت میں جینا نہیں چاہئے۔‘‘ وہ آبدیدہ تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ میرے پاؤں دیکھیں، گوبر کے اوپلے جیسے سوج گئے ہیں۔ مجھے دوا نہیں ملی اور نہ ہی میں چلنے کے قابل ہوں۔‘‘
کور جمعرات کی دوپہر دہلی اتریں اور اپنی بہن کے گھر موہالی جاتے ہوئے اپنی روداد سنائی۔ ضلع ترن تارن کے گاؤں پنگوٹا کی رہائشی کور اپنے شوہر سکھویندر سنگھ کے انتقال کے بعد تقریباً 33 سال پہلے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ امریکا گئی تھیں۔ وہ سان فرانسسکو بے ایریا میں رہتی تھیں اور برکلے کے ایک کپڑوں کی دکان پر کام کرتی رہیں، یہاں تک کہ اس سال جنوری میں گھٹنوں کی سرجری کے باعث نوکری چھوڑنی پڑی۔
8 ستمبر کو انہیں امیگریشن حکام کے ساتھ معمول کی چیک ان کے دوران حراست میں لیا گیا۔ ان کی پناہ کی درخواستیں کئی بار رد ہو چکی تھیں، آخری بار 2012 میں۔ کور کو بیکرز فیلڈ کے میسا ورڈے آئی سی پروسیسنگ سینٹر منتقل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میری حراست پر جتنا بھی عوامی غصہ اور ہمدردی سامنے آئی ، امریکی حکام اس پر سے غیر متاثر نظر آئے ۔
انہیں جارجیا سے آرمینیا اور پھر دہلی لایا گیا، جہاں 132 دیگر افراد بھی ساتھ تھے، جن میں زیادہ تر پنجابی تھے۔ انہوں نے بتایا: ’’میں ہی واحد تھی جسے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں نہیں لگائی گئیں کیونکہ میری عمر زیادہ تھی۔‘‘
امریکا میں ان کے وکیل دیپک اہلووالیہ نے ایک ویڈیو میں ان کے ڈی پورٹ ہونے سے پہلے کے 60–70 گھنٹوں کا حال سنایا۔ ’’انہیں بستر نہیں دیا گیا، صرف ایک کنکریٹ کی بینچ تھی، اور فرش پر کمبل بچھا کر سونا پڑا۔ ڈبل گھٹنے کی سرجری کے باعث وہ لیٹنے کے بعد اٹھ بھی نہیں پا رہی تھیں۔‘‘
اہلووالیہ نے مزید کہا: ’’وہ کھانے کی درخواست کرتیں تاکہ دوا لے سکیں، لیکن نظرانداز کیا گیا۔ کھانے کے طور پر صرف ایک چیز سینڈوچ ملا۔ دوبارہ کچھ مانگنے پر یا پانی طلب کرنے پر تاکہ دوا کھا سکیں، انہیں برف کی پلیٹ دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دانت نہیں ہیں، برف نہیں کھا سکتیں، تو گارڈ نے کہا ، یہ تمہارا مسئلہ ہے۔
ان کے وکیل نے بتایا کہ انہیں پورے وقت نہانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ’’پیر کی شام پرواز سے قبل صرف گیلے وائپس دیے گئے کہ بس صفائی کر لو۔‘‘
اہلووالیہ نے کہا کہ ایک اہلکار انہیں بھی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنانا چاہتا تھا جیسا کہ عام طور پر کیا جاتا ہے، مگر دوسرے نے عمر کی وجہ سے منع کیا۔ ’’سوال یہ ہے کہ ایک 73 سالہ نانی جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں، اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا۔‘‘
ہرجیت کور دکھی ہیں کہ وہ امریکا میں اپنے گھر کو الوداع تک نہ کہہ سکیں۔ ’’میں ایک بار بھی واپس جا کر اپنے سامان کی دیکھ بھال نہ کر سکی، سب کچھ وہیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘
انہوں نے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا جو ان کے ساتھ ڈی پورٹ ہوئے۔ ’’انہوں نے لاکھوں روپے خرچ کیے، کئی ایک نے دس ماہ سے ایک سال تک حراست میں گزارا اور اب خالی ہاتھ واپس آئے۔ وہ بے حد پریشان تھے کیونکہ زمینیں بیچ کر امریکا گئے تھے۔‘‘
کور کے چھوٹے بھائی کلونت سنگھ نے کہا کہ وہ اور خاندان کے دیگر افراد ان کا خیال رکھیں گے۔انہوں نے بتایا: ’’ہم خود ہی ان کا سفری دستاویز بنوا رہے تھے اور حکومتِ امریکا سے گزارش کر رہے تھے کہ انہیں کمرشل فلائٹ سے بھیج دیں۔ صرف 24 گھنٹے کے لیے رہا کر دیں تاکہ وہ سامان سمیٹ سکیں، گھر والوں سے الوداع کہہ سکیں، پھر روانہ ہو جائیں گی۔ لیکن حکام نے کوئی جواب نہ دیا اور ہفتے کی رات اچانک انہیں ہتھکڑی لگا کر لاس اینجلس لے گئے۔‘‘
اہلووالیہ نے کہا کہ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر الگ سے شکایت درج کرائی جائے گی۔ کور نے کہا کہ وکیل نے ویڈیو میں جو کچھ کہا وہ سب سچ ہے۔
کلونت سنگھ نے کہا: ’’یہ افسوسناک ہے کہ انہیں اس طرح ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ وہ خاندان سے جدا ہوگئی ہیں۔ لیکن اب ہم سب پنجاب میں ان کا خیال رکھیں گے۔‘‘