تحریر : سمیرا سلیم
بجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیوں (آئی پی پیز ) سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ماضی کی حکومتوں کے غلط معاہدوں کے اثرات عوام تو مہنگی بجلی کی صورت میں بھگت ہی رہی تھی ،مگر اب اس کی تپش حکومت تک بھی پہنچ گئی ہے اور لگتا ہے کہ حکومت اب ان معاہدوں سے بھاگنے کا سوچ رہی ہے۔
پاکستانی حکومت نے چینی آئی پی پیز کمپنیوں کو تاخیر سے ادائیگی پر سود کی مد میں 220 ارب کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو بھی اس بارے آگاہ کر دیا ہے کہ پاکستان چینی آئی پی پیز کو سود ادا نہیں کرے گی، اور اس سلسلے میں بیجنگ سے باقاعدہ چھوٹ طلب کرے گی۔
سود کی مد میں واجب الادا 220 ارب روپے پاور سیکٹر میں 1.7 کھرب روپے کے مجموعی سرکلر ڈیٹ کاحصہ بھی ہے۔ چین اس معاملے میں پہلے ہی پاکستان سے نالاں رہا ہے، کیونکہ ان چینی کمپنیوں نے واجبات وقت پر ادا نہ کئے جانے پر اپنی حکومت سے معاملہ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی ۔ اسی لئے حالیہ ملاقاتوں میں چین نےپاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سی پیک کے توانائی منصوبوں کو معاہدے کے تحت واجبات کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
2015 کے سی پیک توانائی فریم ورک معاہدے کے تحت پاکستانی حکومت پر لازم ہے کہ وہ بجلی بنانے والی چینی کمپنیوں کو بجلی کی قیمت کی مکمل ادائیگیاں کرے گی چاہے صارفین سے وصولی ہو یا نہ ہو۔ اب حکومت فرماتی ہے کہ ادائیگیاں نہیں کر سکتے۔ادھر بجلی کے بلوں نے عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے۔
پاکستانی خطے کی مہنگی ترین بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور اس کے باوجود پاور سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اپنی غلط پالیسیوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے والے نااہل ترین حکمران اب لگتا ہے کہ آئی پی پیز کے معاملے پر ایک بار پھر بیجنگ سے جھڑکیں کھائیں گے۔
ویسے ہمارے حکمرانوں کا کمال دیکھیں کہ ایسے پاور پلانٹس جو سیاستدانوں اور قریبی کاروباری اشرافیہ کے ہیں، ان کو اربوں روپے کی ادائیگیاں امپورٹڈ کوئلے کے نام پر گنے کا پھوک جلانے پر کی گئیں ۔
شہباز حکومت نے پہلے مرحلے میں جن کو نوازا ان میں جاوید کیانی کی چنار انرجی لمیٹڈ کو 840.3 ملین روپے، وزیراعظم شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کے پلانٹ چنیوٹ پاور لمیٹڈ کو 1.48 ارب روپے اور حمزہ شوگر ملز کو 1.42ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔ جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو کے دو یونٹس کو 4.1 ارب روپے، اور رحیم یار خان ملز کو 399.3ملین روپے جاری کیے ہیں۔
سیاستدانوں کے پاور پلانٹس کو متنازعہ ادائیگیاں بڑے آرام سے کر دی گئیں۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں وہ بھی اپنوں میں۔ہائبرڈ حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ صرف پاور سیکٹر کے گردشی قرض کا حجم وفاق کے ترقیاتی بجٹ سے 66 فیصد زیادہ ہے۔
ان آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے کے لئے قرض لئے جاتے ہیں۔ حکومت نے تقریباً 17 سو ارب روپے کے گردشی قرضے سے نمٹنے کے لئے حال ہی میں 18 کمرشل بینکوں سے 12.25کھرب روپے قرض لے لیا ہے۔ اس قرض کی ادائیگی بلوں میں ڈیٹ سروس سرچارج کے ذریعے ہو گی یعنی یہ بھی بوجھ بجلی کے عام صارفین اٹھائیں گے۔
اب پاکستانی عوام چھ سال تک فی یونٹ 3 روپے 23 پیسے سرچارج ادا کریں گے۔ہم بھی اپنے معاشی قتل عام کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں نت نئے ٹیکسز ادا کرنے میں کوئی دقت ہی نہیں ہوتی۔
موجودہ حکمران جب سے ہم پر مسلط ہوئے ہیں قرضوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ان کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ قرض پہ قرض لئے جا رہے ہیں، اور اس کے بعد قوم کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے لٹنے پر شادیانے بھی بجاتے ہیں۔
اب آپ ذرا پنجاب کی ٹک ٹاکر حکومت کو ہی دیکھ لیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چند دن قبل بڑے جوش سے کہا کہ میں نواز شریف کی بیٹی ہوں، میں تو بھیک نہیں مانگتی۔ اب کوئی جاکر محترمہ مریم نواز کو بتائے کہ بی بی آپ کی حکومت نے قرض لینے میں اک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نیا مالی سال شروع ہوئے تیسرا ماہ ہے کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا قرض لینے والا صوبہ بن گیا ہے۔ 38 دن میں پنجاب حکومت 405 ارب روپے قرض لے چکی ہے اور دعویٰ ہے کہ میں تو بھیک نہیں مانگتی۔
بیورو کریسی نے بھی وہی راہ پکڑ لی ہے جس پر وزیر اعلیٰ اور انکے وزراء کی ٹیم چل رہی ہیں۔ ان سب کا بھی سارا زور ٹک ٹاک بنانے پر ہے۔ دو روٹیاں پکڑاتے ہوئے وڈیو بن رہی ہے تو کہیں سیلاب میں گھرے "اک شخص” کو مختلف جگہوں سے برآمد کر کے احسان عظیم جتایا جا رہا ہے۔
کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنی وزیر اعلیٰ کو بتائیں کہ ان کا صوبہ قرض میں ڈوب چکا ہے۔ بات وہی ہے کہ ان قرضوں کی ادائیگی سود سمیت عوام نے کرنی ہے ان کی جیبوں سے تو کچھ نہیں جانا۔ عوام بھی لٹنے پر بخوشی راضی ہو تو پھر سرکاری بابوز کو بھلا کیا ضرورت ہے کہ نعرہ حق بلند کر کے حکمرانوں کو ناراض کریں اور اچھی پوسٹنگ سے بھی جائیں۔