امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجوزہ غزہ جنگ بندی منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ تنازع کے خاتمے کے معاہدے پر متفق ہونے کے ’انتہائی قریب‘ ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا منصوبے کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’ بہت بڑا ’ دن ہے، ہم غزہ امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ایسی باتیں جو سیکڑوں سالوں سے، ہزاروں سالوں سے جاری ہیں، ہم بہت ہی قریب ہیں اور بہت زیادہ قریب ہو چکے ہیں۔
انہوں نے امن کے عمل میں نیتن یاہو کے کردار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’ ہم نے مل کر اچھا کام کیا ہے، اور کئی دیگر ممالک کے ساتھ بھی، اور یہی اس صورتحال کو حل کرنے کا طریقہ ہے۔’
ٹرمپ نے کہا کہ ان کا ہدف صرف غزہ پٹی ہی نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کے ساتھ میں نے ایران، ابراہم معاہدوں اور غزہ تنازع کے خاتمے جیسے مسائل پر بات کی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ’ یہ بڑے منظر نامے کا حصہ ہے، جو کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے … آئیے اسے ‘ابدی’ امن کہتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ’ علاقے میں ہمارے دوستوں اور شراکت داروں سے وسیع مشاورت کے بعد باضابطہ طور پر امن کے لیے اپنے اصول جاری کر رہا ہوں اور لوگوں نے واقعی انہیں پسند کیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ میں عرب اور مسلم ممالک کے کئی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس تجویز کی تیاری میں شاندار حمایت فراہم کی۔
’شہباز شریف اور فیلڈ مارشل نے منصوبے کی 100 فیصد حمایت کی‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ وزیرِ اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر شروع سے ہمارے ساتھ تھے، درحقیقت انہوں نے ابھی ایک بیان جاری کیا ہے کہ وہ اس معاہدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور وہ اس کی سو فیصد حمایت کرتے ہیں۔’
امریکی صدر نے نیتن یاہو کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے منصوبے سے اتفاق کیا اور ’ یہ اعتماد کیا کہ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم علاقے میں موت اور تباہی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔’
’حماس کو 72 گھنٹوں میں یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا‘
ٹرمپ نے کہا کہ’ اگر حماس نے اسے قبول کر لیا تو اس تجویز میں تمام باقی ماندہ یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن کسی صورت بھی 72 گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ ’ اس منصوبے کے تحت، عرب اور مسلم ممالک نے غزہ کو تیزی سے غیر مسلح کرنے، حماس اور دیگر تمام تنظیموں کی فوجی صلاحیت ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ہم ان ممالک پر بھروسہ کر رہے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ حماس سے نمٹیں گے اور مجھے سننے میں آیا ہے کہ حماس بھی یہ کرنا چاہتی ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر ’سرنگیں اور اسلحہ بنانے کی تنصیبات ختم کر دی جائیں گی اور غزہ پٹی میں مقامی پولیس فورس کو تربیت دی جائے گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ’ غزہ میں نئی عبوری اتھارٹی کے ساتھ کام کرتے ہوئے، تمام فریق اسرائیلی افواج کے مرحلہ وار انخلا کے لیے ایک ٹائم لائن پر متفق ہوں گے، امید ہے کہ مزید فائرنگ نہیں ہو گی۔’
انہوں نے کہا کہ ’ عرب اور مسلم ممالک کو حماس سے نمٹنے کے ان وعدوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، یہ وہ واحد گروہ ہے جس سے میں نے براہِ راست معاملہ نہیں کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر حماس نے معاہدہ مسترد کر دیا، جو ممکن ہے، اور میرا احساس ہے کہ ہمیں ایک مثبت جواب ملے گا، لیکن اگر نہیں تو پھر نیتن یاہو کو میرا مکمل تعاون ہوگا کہ وہ جو کرنا چاہیں کریں۔’
امریکی صدر نے زور دیا کہ بالآخر ہدف اس خطرے کو ختم کرنا ہے جس کا ذمہ دار انہوں نے حماس کو ٹھہرایا۔
بین الاقوامی نگران ادارہ ‘بورڈ آف پیس’ تشکیل دیا جائے گا، ٹرمپ
انہوں نے کہا کہ ’اس کوشش کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے میری منصوبہ بندی ایک نئے بین الاقوامی نگران ادارے کی تشکیل کا مطالبہ کرتی ہے، ’ انہوں نے اس نگران ادارے کو ‘بورڈ آف پیس’ کا نام دیا اور بتایا کہ یہ ادارہ عرب رہنماؤں، اسرائیل اور خود ٹرمپ کی قیادت میں ہوگا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بورڈ میں دیگر ممالک کے ممتاز رہنماؤں کو شامل کریں گے، ان میں سے ایک شخصیت برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر ہیں، جو اس بورڈ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ مزید رہنما بھی ہوں گے اور ان کے نام آنے والے دنوں میں اعلان کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ بینک کو یہ ذمہ داری دی جائے گی کہ وہ فلسطینیوں پر مشتمل ایک نئی حکومت کی تربیت اور بھرتی کرے، ساتھ ہی دنیا بھر سے ’ اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین’ بھی شامل کرے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’ حماس اور دیگر تنظیمیں غزہ کی حکومت میں بالکل بھی کوئی کردار ادا نہیں کریں گی۔’
ٹرمپ نے کہا کہ نیتن یاہو اب بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جو وہ آج کر رہے ہیں وہ اسرائیل کے لیے اچھا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی عوام لڑائی کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’ کچھ دیگر ممالک نے جلد بازی میں ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جاری حالات سے بہت تھک چکے ہیں، اور اسرائیل کے عوام بھی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔’
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں فلسطینیوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنی تقدیر کا خود اختیار سنبھالیں، اگر فلسطینی اتھارٹی میری اصلاحات مکمل نہیں کرتی … تو اس کے ذمے دار وہ خود ہوں گے۔’
ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ پائیدار اور طویل المدتی امن لے کر آئے گا اور ابراہیم معاہدوں کے حوالے سے کہا کہ ’شاید ایران بھی اس میں شامل ہوسکے۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس کے رکن بن سکتے ہیں، میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ ایران ابراہیم معاہدوں کا حصہ ہوگا، یہ حقیقی امن کے بہت قریب ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک نیوز کانفرنس سے قبل کہا تھا کہ ’رہنماؤں نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی تجویز، مشرق وسطیٰ کے زیادہ محفوظ مستقبل کے امکانات اور اپنے ممالک کے درمیان زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت پر بات کی۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ نیتن یاہو نے دوحہ میں ایک اسرائیلی حملے پر قطر کے رہنما سے اوول آفس میں ہونے والی سہ فریقی کال میں افسوس کا اظہار کیا۔
’اسرائیل، قطر اور امریکا کے درمیان باضابطہ سہ فریقی میکنزم قائم کرنے پر اتفاق‘
امریکی صدر نے کہا کہ ’ اسرائیلی وزیراعظم نے قطری ہم منصب سے بات کی، ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اسرائیل، قطر اور امریکا کے درمیان ایک باضابطہ سہ فریقی میکنزم قائم کیا جائے تاکہ باہمی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے، غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے اور مستقبل میں مسائل سے بچا جا سکے۔’
ٹرمپ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حماس اس تجویز کی شرائط کو قبول کرے، اور نوٹ کیا کہ غزہ تنازع کے دوران ان کی زیادہ تر قیادت شہید ہو چکی ہے، اس لیے حماس ’وہی لوگ نہیں رہے جن سے امریکا پہلے معاملہ کرتا تھا۔‘
ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ’ہر وہ شخص جو تشدد اور تباہی کے خاتمے کا خواہاں ہے، اسے متحد ہو کر یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ حماس اس نہایت منصفانہ تجویز کو قبول کرے، تاکہ ہم جنگ ختم کر سکیں، اپنے یرغمالیوں کو فوراً واپس لا سکیں اور ہمیشہ قائم رہنے والا امن حاصل کر سکیں۔‘
قبل ازیں رائٹرز کو نیتن یاہو کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا تھا کہ پیر کو وائٹ ہاؤس سے کی گئی ایک فون کال میں نیتن یاہو نے دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے پر اپنے قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی سے معذرت کی۔
ایک علیحدہ ذریعے کے مطابق ایک قطری تکنیکی ٹیم بھی وائٹ ہاؤس میں موجود ہے، اس دوران اے ایف پی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے ایک سفارت کار نے کہا تھا کہ نیتن یاہو نے قطری خودمختاری کی خلاف ورزی اور ایک قطری سیکیورٹی گارڈ کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔
ٹرمپ نے اس تنازع کو ختم کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے یہاں 32 ملاقاتیں کی ہیں، یہ سب سے اہم ہے کیونکہ ہم ایک ایسے معاملے کو ختم کرنے جا رہے ہیں جو شاید کبھی شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
قبل ازیں، اسرائیل کے چینل 12 اور امریکی ویب سائٹ ایکسیوس کی رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے منصوبے میں فوری جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں (زندہ اور ہلاک) کی رہائی؛ غزہ سے اسرائیلی انخلا کا مرحلہ وار منصوبہ، جس میں حماس شامل نہیں ہوگی بلکہ فلسطینی اتھارٹی کو شامل کیا جائے گا؛ غزہ کی سیکیورٹی اور اسرائیلی انخلا کی نگرانی کے لیے عرب اور مسلم امن دستوں کی تعیناتی؛ اور علاقائی شراکت داروں کی فنڈنگ سے تعمیرِ نو اور عبوری پروگرام شامل ہیں۔
اس دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس اسرائیل کی غزہ پر بمباری ختم کرنے اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے ایک فریم ورک معاہدے کے ’ بہت قریب’ ہیں۔
لیوٹ نے ’فاکس اینڈ فرینڈز‘ پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ آج وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کے ساتھ 21 نکاتی امن منصوبے پر بات کریں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ ٹرمپ قطر کے رہنماؤں سے بھی بات کریں گے، جو حماس کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
کیرولین لیوٹ نے مزید کہا تھا کہ ’دونوں فریقوں کے معقول معاہدے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کچھ نہ کچھ قربانی دیں اور ممکن ہے وہ میز سے تھوڑے ناخوش ہو کر اٹھیں، لیکن بالآخر یہی اس تنازع کو ختم کرنے کا راستہ ہے۔‘