صارفین کو اگست 2025 کے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی مد میں بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ 19 پیسے تک اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قیمتوں میں یہ ردوبدل اکتوبر کے ماہانہ بلوں میں ظاہر ہوگا۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پیر کو اپنے ہیڈ کوارٹرز میں عوامی سماعت کی جس میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی-گارنٹی (سی پی پی اے-جی) کی جانب سے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 19 پیسے تک اضافے کی درخواست پر غور کیا گیا۔
سی پی پی اے-جی نے بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو بنیاد بناتے ہوئے اس اضافے کا مطالبہ کیا۔ پاور سیکٹر ریگولیٹر نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد جاری کیا جائے گا۔
سماعت میں وزارت توانائی کے نمائندے، کاروباری برادری کے افراد، صحافی اور عام شہری شریک ہوئے۔ سی پی پی اے-جی نے کہا کہ درخواست کردہ ایڈجسٹمنٹ صرف ایک مہینے کے لیے ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف سی اے تمام تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے صارفین پر لاگو ہوگا، کے-الیکٹرک سمیت، تاہم لائف لائن صارفین، پری پیڈ صارفین اور الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ اگر درخواست منظور ہوگئی تو صارفین پر 3 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
صنعتی صارفین نے، جو سماعت میں شریک تھے، مجوزہ اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ وزیر اعظم کے سپورٹ پیکج کے خاتمے سے ان کے اخراجات پہلے ہی 10% بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ صنعتی نرخ فی یونٹ 29 روپے سے بڑھ کر 35 روپے تک پہنچ سکتے ہیں، حالانکہ انہیں 9 سینٹ فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
نیپرا نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مؤقف کو بغور سنا گیا ہے اور مزید ڈیٹا کی تصدیق کے بعد تفصیلی فیصلہ سنایا جائے گا۔
سی پی پی اے-جی کی درخواست کے مطابق، بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن کی لاگت اوسطاً 7.5059روپے فی کلوواٹ گھنٹہ (kWh) رہی جبکہ ریفرنس پرائس 7.3149روپے/kWh تھی۔
ٹرانسمیشن لاسز، آزاد بجلی گھروں (آئی پی پیز) کو فروخت اور پچھلے ایڈجسٹمنٹس کو مدنظر رکھنے کے بعد وہ لاگت جس پر ڈسکوز کو بجلی فراہم کی گئی، 7.5059 روپے/kWh بنی۔ اس حساب سے سی پی پی اے-جی نے فی یونٹ 0.1911روپے کے اضافے کی درخواست کی۔
کوئلے پر مبنی بجلی پیداوار نے فراہمی کا بڑا حصہ فراہم کیا، مقامی کوئلے سے 1,442 گیگا واٹ گھنٹے (GWh) بجلی 12.0146 روپے/kWh کی لاگت پر جبکہ درآمدی کوئلے سے 1138 GWh بجلی 14.0753روپے/kWh پر تیار ہوئی۔
ایٹمی توانائی نے دوہزار ایک سو پینتالیس GWh پیدا کیے، جو کل پیداوار کا 15.09% بنتا ہے، اور اس کی لاگت کافی کم یعنی 2.1950روپے/kWh رہی۔ ایران سے درآمدی بجلی، اگرچہ حصہ صرف 78 GWh تھا، لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ 41.0948روپے/kWh رہی۔
ریزڈیول فیول آئل سے چلنے والے پلانٹس نے 92 GWh بجلی پیدا کی، جو روایتی ایندھن میں سب سے مہنگی 33.0064روپے/kWh تھی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل سے ایک بھی یونٹ بجلی پیدا نہیں کی گئی۔
فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹس نیپرا ایکٹ 1997 کی شق 31(7) کے تحت کیے جاتے ہیں۔ ایک نوٹس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کی پالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق یکساں فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹس کے تحت ڈسکوز پر لاگو چارجز کے-الیکٹرک کے صارفین پر بھی لاگو ہوں گے تاکہ ملک بھر میں برابری کو یقینی بنایا جا سکے۔