رپورٹ : رانا اشرف
اسلام آباد میں تین سالوں کے دوران آوارہ کتوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 29 ہزار سے بڑھ کر 50 ہزار ہو گئی ہے ۔ آوارہ کتے اس وقت ریڈ زون کے علاقے میں موجود ہیں۔ سرکاری دفاتر ہسپتال پارکوں میں آوارہ کتوں نے ڈیرے ڈال لیے بچوں اور خواتین پر کتوں کے حملوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسینیشن بھی مشکل سے ملتی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق کچھ سال پہلے تک کتوں کو تلف کرنے کے لیے گولی ماری جاتی تھی یا زہر دیا جاتا تھا اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سال میں دو تین بار کتا مار مہم چلائی جاتی تھی جانوروں کی حقوق کی تنظیموں نے اس ظلم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا کہ کتوں کو قتل کرنے سے روکا جائے اور ان کی افزائش کو روکنے کے لیے دنیا بھر کی طرح ایسے طریقے اپنائے جائیں کہ ان کتوں پر ظلم نہ ہو اس کیس میں عدالت نے حکومت کو ہدایات جاری کر دی کہ سی ڈی اے ان آوارہ کتوں کےیے شیلٹر بنائے اور ان کی نس بندی کر کے افزائش کو روکا جائے اور اس کے ساتھ۔ ان کی ویکسینیشن کی جائے تا کہ ان کے کاٹنے سے کسی کو ویکسینیشن کرانے کی ضرورت نہ رہے۔
عدالت کے حکم اور پالیسی کے بعد سی ڈی اے نے ایک ڈاگ سینیٹر ترلائی کے مقام پر قائم کیا بدقسمتی سے یہ ڈاک سینٹر کچھ عرصہ اچھے طریقے چلا لیکن بعد غیر فعال ہو گیا اس وقت ڈاگ سینٹر میں کتوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کو گندے ہوٹلوں سے کچرا لا کر کھانا کا کھلایا جاتا ہے ان کی نس بندی کے لیے بھی فنڈ موجود نہیں ہیں اور جس کو اس سینٹر کا ٹھیکہ دیا ہوا تھا وہ بھی بھاگ گیا ہے اب ڈاگ سینٹر میں پکڑے گئے آوارہ کتوں کی حالت بہت خراب ہے ۔
جانوروں کی حقوقِ کے کام کرنے والی ایک این جی او کی سربراہ انیلا عمر نے رؤف کلاسرا آفیشل پیج کیلئے رانا اشرف سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت اس وقت جانوروں کے حقوق کے لیے کوئی کام نہیں کر رہی۔ اس وقت مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اسلام آباد میں کتوں کے لیے شیلٹر دینے اور ان کے علاج معالجے کے لیے اپنی طور کام کر رہی ہیں ۔ہم اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا ہوا ہے ہم کتوں کو مارنے کے خلاف ہیں لیکن ہم ان افزائش روکنے اور ان کی بہتر دیکھ بھال کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ قدرت کا قانون ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق دنیا میں پیدا ہوئی ہے جس کو آنے سے روکنا مشکل ہے لیکن افزائش کو روکا جا سکتا ہے ۔یہ معصوم جانور ہے ان کا قتل کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ سی ڈی اے کی نااہلی سے ڈاگ سینٹر غیر فعال ہے اور اس وقت ڈاگ سینٹر کو چلانے کے لیے کوئی فنڈز بھی موجود نہیں۔ ہمارے معاشرے کی بے حسی اس حد تک کہ ڈاگ سینٹر کے فنڈز میں بھی کرپشن کی گئی۔ اس وقت ڈاک سینٹر کی حالت اتنی بری ہے کہ وہاں گرفتار کتے برے حالات میں ہیں اور وہاں کسی کو وزٹ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور نہ کسی کو موبائل لے جانے کی اجازت ہے۔
ڈاگ سینٹر ایک ظلم کی داستان ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں اور خدا کی بنائی ہوئی مخلوق پر ظلم کیا جا رہا ہے انھوں نے مزید بتایا کہ ڈاگ سینٹر میں مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں جس کی وجہ سے ارد گرد کے علاقوں کے انسانوں کی شدید خطرہ ہے۔ اس وقت ڈاک سینٹر کے قریب کام سیٹ جیسے تعلیمی ادارے بھی ہیں ۔انھوں نے اپیل کی کہ ان بے زبان جانوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔
اس وقت ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آوارہ کتوں کی آبادی والا ملک ہے جہاں کتوں کی آبادی تقریبا ًڈیڑھ کروڑ ہے اور نئی دہلی 30 لاکھ آوارہ کتوں کی تعداد کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے