امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے جمعہ کو تصدیق کی ہے کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے۔
یہ معاہدہ امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ (Pete Hegseth) اور ان کے بھارتی ہم منصب راجناتھ سنگھ کے درمیان کوالالمپور میں ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا۔
پیٹ ہیگسیتھ نے ’ایکس‘ پوسٹ میں بتایا کہ یہ فریم ورک خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا، انہوں نے لکھا کہ ’ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے‘۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں،اور اس دوران تعلقات میں اس وقت تناؤ پیدا ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تک درآمدی محصولات (ٹیرِف) عائد کر دیے —جن میں روسی تیل اور ہتھیار خریدنے پر 25 فیصد جرمانہ بھی شامل ہے۔
معاہدے کی اہمیت
یہ معاہدہ بھارت-امریکہ دفاعی تعلقات کے مکمل دائرہ کار کے لیے پالیسی سمت فراہم کرے گا۔
راجناتھ سنگھ نے ایکس (X) پر لکھا:
یہ ہمارے بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک تعاون کی علامت ہے اور شراکت داری کے ایک نئے عشرے کا آغاز کرے گا۔ دفاع ہمارے دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم ستون رہے گا۔ہماری شراکت داری ایک آزاد، کھلے اور ضابطوں پر مبنی انڈو-پیسیفک خطے کو یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔
پسِ منظر اور تاخیر کی وجوہات
یوریشیا گروپ (Eurasia Group) سے وابستہ تجزیہ کار پرمیت پال چوہدری کے مطابق،یہ معاہدہ دراصل جولائی-اگست میں طے ہونا تھا،مگر ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ تنازع ختم کرنے میں اپنے کردار کے بارے میں بیانات پر بھارت کی ناراضی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایسے سلسلے کا حصہ ہے جس نے دونوں افواج کے درمیان مشترکہ کارروائیوں (interoperability) کو آسان بنایا،بھارت کو امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی،اور دونوں ممالک کے دفاعی شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔اس سے تینوں شعبوں میں مزید پیش رفت کے امکانات پیدا ہوں گے۔
حالیہ دفاعی تعلقات
حالیہ مہینوں میں بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دفاع کے معاملات بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے فروری میں امریکہ کے دورے کے دوران مرکزی نکتہ تھے،جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ بھارت کو اربوں ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان فروخت کرے گا جو بالآخر F-35 اسٹیلتھ جنگی طیارے فراہم کرنے کی راہ ہموار کرے گا تاہم اس کے بعد سے بھارت کی روسی تیل پر انحصار اور ماسکو کے ساتھ پرانے دفاعی تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئے۔
اگرچہ روس ابھی بھی بھارت کو ہتھیاروں کا ایک اہم سپلائر ہے،لیکن اس کا حصہ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ نئی دہلی اب اپنی دفاعی سپلائی متنوع بنانے اور مقامی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اور اب بھارت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے توانائی اور دفاعی خریداری بڑھانے کے لیے تیار ہے۔





