(زیرنظر مضمون ”دی اٹلانٹک“ کیلئے سائنس رپورٹر ایڈ یانگ کی تحریر سے ماخوذ ہے۔)
دوسری عالمی جنگ اور نائن الیون کی طرح کورونا وائرس کی وبا نے ابھی سے امریکیوں کی نفسیات پر انمٹ نقوش چھوڑ دیے ہیں۔ اس طرح کی عالمی وبا ناگزیر تھی۔ حالیہ برسوں میں سینکڑوں طبی ماہرین نے کتابیں، وائٹ پیپرز اور مضامین لکھ کر ایسی وبا کا امکان ظاہر کیا تھا۔
بِل گیٹس اپنے ایک کروڑ 80 لاکھ دیکھنے والوں کو ٹیڈٹاک میں یہی بتایا تھا، خود میں نے 2018 میں اٹلانٹک کیلئے خبر لکھی تھی جس میں کہا تھا کہ امریکہ آنے والی وباء کیلئے تیار نہیں ہے اور پھر یہ سب ہوگیا، مفروضوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔
گزشتہ بدھ میں اپنی ایک حاملہ دوست کے ساتھ تھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ اس کا ہونیوالا بچہ کورونا وائرس سے تبدیل شدہ معاشرہ میں آنکھ کھولنے والے نئے گروہ کے اولین افراد میں سے ہوگا۔ ہم نے اس نسل کو جنریشن سی کا نام دے دیا۔ جنریشن سی کی زندگیاں آنیوالے ہفتوں میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق تشکیل پائیں گی۔
گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی انڈیکس 2019 کے مطابق وبا سے نمٹنے کی تیاری میں امریکہ 83.5 اسکور کے ساتھ پوری دنیا میں سب سے اوپر تھا۔ امیر، ترقی یافتہ اور طاقتور ملک ہونے کے ناطے امریکہ کو دنیا کی تیار ترین قوم ہونا چاہئے تھا۔ مگر یہ فریب چکنا چور ہوچکا ہے۔ کورونا وائرس،جو مہینوں سے دیگر ممالک میں پھیل رہا تھا، جب امریکہ پہنچا تو یہ عظیم ملک ناکام ہو گیا۔
کورونا وائرس پر قابو پانی کیلئے ممالک کو ٹیسٹ تیار کرنا چاہئے جس سے وائرس سے متاثرہ افراد بارے معلوم ہو سکے تاکہ انہیں الگ تھلگ کیا جا سکے اور ان لوگوں کا کھوج لگایا جا سکے جن سے وہ ملے ہوں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ نے بڑے پیمانے پر ایسا کیا مگر امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔ اس بات کا تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ امریکہ کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے ایک سادہ ٹیسٹ بنانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس وبا کے دوران یہی امریکہ کا حقیقی گناہ تھا۔
امریکی ہیلتھ کئیر نظام کو، جو پہلے ہی اپنی پوری گنجائش میں کام کر رہا تھا، ایک ایسے وائرس سے نمٹنا پڑ گیا جسے کھوج لگائے بغیر پھیلنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسپتال بھر گئے۔ بنیادی حفاظتی سامان جیسا کہ ماسک، گاؤنز، دستانے وغیرہ ختم ہونا شروع ہوگئے۔ اس کے بعد جلد بیڈز ختم ہونگے اور پھر جن مریضوں کے پھیپھڑوں کو وائرس برباد کر دے گا انکو آکسیجن فراہم کرنے والے وینٹی لیٹرز ضرورت ہوں گے۔
میں نے جتنے بھی طبی ماہرین سے بات کی ہے، سب کا یہی کہنا ہے کہ امریکہ نے کورونا وائرس وبا کو بدترین انداز میں ہینڈل کیا ہے۔
آنیوالے ماہ کیسے ہونگے؟
کورونا وائرس ایک سست مگر لمبی وبا ہے۔ کئی دن قبل متاثر ہونیوالے افراد میں کورونا وائرس کی علامات اب ظاہر ہونگی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو اپریل کے شروع میں آئی سی یو میں داخل ہونا پڑے گا۔
گزشتہ ہفتہ امریکہ میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 17 ہزار تھی مگر غالباً حقیقت میں متاثرہ افراد کی تعداد 60 ہزار سے دو لاکھ 45 ہزار کے درمیان تھی۔ اب یہ اعداد تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بدھ کی صبح سرکاری اعدادوشمار کی مطابق کورونا وائرس مریضوں کی تعداد 54 ہزار تھی مگر اصل اعدادوشمار نامعلوم ہیں۔
ہیلتھ کئیر ورکرز ابھی سے پریشان کن علامتیں دیکھ رہے ہیں، ختم ہوتا سامان، بڑھتے مریض اور ڈاکٹر و نرسیں خود وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔
اٹلی اور سپین مایوس کن مستقبل کا انتباہ دے رہے ہیں۔ اسپتالوں میں کمرے، سامان اور اسٹاف ختم ہو گیا ہے۔ وہاں ڈاکٹر کورونا وائرس مریضوں میں سے چند کو بچانے کے فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ جن کے بچنے کے امکانات کم ہیں انہیں مرنے کیلئے چھوڑا جارہا ہے۔ امریکہ میں تو فی کس بیڈ اٹلی سے بھی کم ہیں۔
امپیریل کالج لندن کی ایک اسٹڈی کے مطابق اگر امریکہ میں کورونا وائرس وبا اسی طرح بے قابوپھیلتی رہی تو اپریل کے آخر میں بیڈ نہیں بچیں گے۔ جون کے آخر میں ایک بیڈ کیلئے کورونا وائرس کے 15 مریض منتظر ہونگے۔ گرمیوں کے اختتام تک کورونا وائرس وبا 22لاکھ امریکیوں کو ہلاک کر چکی ہوگی۔ ان میں دل، کار حادثات اور دیگر بیماریوں کے مریض شامل نہیں جنہیں کورونا وائرس وبا کے باعث اسپتالوں میں جگہ نہیں ملے گی اور نتیجہ میں وہ ہلاک ہوجائیں گے۔
یہ کورونا وائرس وبا کی بدترین صورتحال کی منظر کشی ہے۔ اس منظرنامہ سے بچنے کیلئے چار چیزوں کی فوری ضرورت ہے۔
پہلی اور سب سے اہم چیز تیزی سے ماسک، گلوزاور دیگر حفاظتی سامان کی تیاری ہے۔ اگر ہیلتھ کیئر ورکرز صحت مند نہیں رہتے تو باقی سب بے معنی ہے۔ بعض جگہوں پر ماسک اتنے کم ہیں کہ ڈاکٹرز عوام سے عطیات کی اپیل کر رہے ہیں یا گھر پر متبادل تیار کر رہے ہیں۔
دوسری چیز کورونا وائرس کے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کرنا ہے۔ 6 مارچ کو صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ جو بھی چاہے کورونا کا ٹیسٹ کرا سکتا ہے مگر یہ اس وقت بھی غلط تھا ابھی بھی یہ درست نہیں۔ حفاظتی سامان کی تیاری اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹوں کیلئے اقدامات میں وقت لگے گا۔ اس دوران یا تو وبا ہیلتھ نظام کی صلاحیت سے بھی زیادہ پھیل جائے گی یا پھر قابو میں رہے گی۔
مگر اس بات کا تعین تیسری چیز کرے گی اور وہ ہے سماجی دوری۔ ہم فرض کر سکتے ہیں کہ امریکیوں کے دو گروہ ہیں۔ گروپ A میں میڈیکل ریسپونس کا ہر فرد شامل ہے۔ ٹیسٹ کرنیوالے، مریضوں کا علاج کرنیوالے اور انکے لیے حفاظتی سامان تیار کرنیوالے گروپ A کا حصہ ہیں۔ دوسری طرف گروپ B میں ان کے علاوہ سب امریکی شامل ہیں۔
اب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں گروپ B کا کام ہے کہ وہ سماجی دوری اختیار کر کے بیماری کی ترسیل روکے تاکہ گروپ A کیلئے زیادہ وقت کا انتظام ہو سکے۔ ہیلتھ کئیر نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے یہ اقدامات فوری اٹھانے چاہیئں۔
پورے ملک کو رضاکارانہ گھر پر رہنے کیلئے قائل کرنا آسان کام نہیں۔ ان حالات میں جب سب کی بھلائی بہت سے لوگوں کی قربانی پر انحصار کر رہی ہو تو چوتھی چیز کی ضرورت ہمیں پڑتی ہے اور وہ ہے واضح کوآرڈینیشن۔ عوام کو سماجی دوری کی اہمیت بتائی جائے۔ ٹرمپ نے بارہا کورونا وائرس وبا کے خطرات کو کم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ یہ وبا ہمارے قابو میں ہے مگر ایسا نہیں ہے۔
سماجی دوری کورونا وائرس کیسز کی شرح میں 95 فیصد کمی کر سکتی ہے مگر ٹرمپ کی جانب سے معیشت کو بچانے کیلئے سماجی دوری کی پالیسی پر یوٹرن کا اشارہ دیا گیا ہے۔
لیکن اگر ٹرمپ یوٹرن نہیں لیتے، اگر امریکی سماجی دوری کی پالیسی سے جڑے رہتے ہیں، اگر بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کئے جاتے ہیں اور اگر کافی ماسک بنا لیے جاتے ہیں تو امکان ہے کہ امریکہ کورونا وائرس وبا بارے کی گئی بدترین پیش گوئیوں کے راستہ سے ہٹ جائے گا اور کم از کم عارضی طور پر اس وبا پر قابو پالے گا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزز کے ڈائریکٹر انتھونی فاسی کا کہنا ہے کہ یہ عرصہ چارسے چھ ہفتوں سے لیکر تین ماہ میں ہوسکتا ہے۔
(جاری ہے)