نیویارک کے ہسپتال سے جڑے ایک قریبی عزیز کے ایام تیمارداری کی روداد۔ یہ کالم صاحبزادہ حسن کی دختر فرخندہ اختر مشعل حسن کی نذر ہے۔
(حرمت و رازداری کی وجہ سے کچھ کرداروں کے نام بدل دیے گئے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھانا کی جواں سال، دارز قد، رحمدل بڑی آنکھوں والی نرس عجوبہ کو زیرعلاج شایان اچھا لگتا ہے۔ کیمو تھراپی سے جسم تیزاب گری ہوئی زمین جیسا ہوجاتا ہے۔ روح بکھر جاتی ہے، جسم ٹوٹ جاتا ہے۔ عجوبہ کوشش کرتی ہے کہ شایان کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہرے اور اس کی دل جوئی کرے۔ جب اس کی جانب دیکھتی ہے تو لگتا ہے کہ گرم کپڑے سے زخموں کی ٹکور کر رہی ہو۔ پروفیشنل ضوابط میں یہ نوجوان دل کی معمولی سی قدردانی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ امریکہ میں دل سمندروں ڈونگے نہیں ہوتے۔ ایک دن باہر لنچ پر گئی تو اپنی طرف سے آئس کریم سوڈا کے چھ کین لے آئی۔ پاکستانی ریستوراں کے ساتھ بنگالی اسٹورز پر دکھائی دیے تھے۔ بہت خوش تھی کہ پتہ چل گیا کہ شایان کا من پسند ڈرنک کہاں ملتا ہے۔
اسی ہسپتال میں شایان کے کمرے سے جڑا بچوں کا وارڈ ہے۔ نرس عجوبہ کمرے میں موجود تھی کہ ہسپتال کلاؤن (مسخرہ) لونی لینی آ گیا۔ اسے کسی نے معمولی اجرت پر بچوں کو خوش رکھنے کے لیے جزوقتی طور پر ملازمت دی ہوئی ہے۔ انگریزی لفظ Looney کا مطلب مسخرہ، جھلا، کملا ہوتا ہے۔
یہ آمد اسی خودکشی کے اظہار سے جڑی ہے جس کا تذکرہ پچھلی قسط میں آیا تھا۔
شایان نے آغاز سنجیدہ گفتگو سے کر دیا۔ وہ جان گیا تھا کہ اس جوکر والے دکھاوے کے پیچھے ایک بہت سنجیدہ اور Loaded انسان ہے۔ لونی بتانے لگا کہ وہ چار کام کرتا ہے۔ تین کی اسے اجرت ملتی ہے۔ چوتھا کام، جو سب سے مشکل کام ہے وہ فری میں کرنا پڑتا ہے۔ وہ چوتھا کام مگر ترتیب سے بتائے گا۔ جادوگر اور کلاؤن اگر ترتیب سے کام نہ کریں تو ناکام ہوجاتے ہیں۔
پہلا تو یہ کہ وہ Concept Photographer ہے۔ دوسرا وہ ایک ٹرینڈ جادوگر ہے تیسرا یہ کہ وہ براڈوے جو امریکہ میں تھیٹر کے حوالے سے بہت بڑا نام ہے وہاں C- Rated اسٹیج اداکار کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ C- Rated کیوں شایان نے پوچھا۔ کلاؤن، جوکر اور جادوگر ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ غیر حقیقت پسند ہو جائیں۔ مجھے اپنی صلاحیتوں کا بخوبی علم ہے۔ وہ فری والا مشکل کام کیا ہے۔ شایان نے پوچھ ہی لیا۔
وہ یہ کہ میں ایک بے حد حسین اور ذہین عورت کا شوہر ہوں جو ایک بڑے تشہیری ادارے کے شعبہ آرٹ کی سربراہ ہے۔ شایان کو اس نے تصویر دکھائی تو اسے لگا کہ میکسکن اداکارہ سلمہ ہایئک جڑواں بہن ہے۔ اب لونی نے جادو کی دو تین ترکیبیں دکھا کر شایان سے پوچھا کہ وہ اتنا سنجیدہ اور اداس کیوں ہے۔ مسکراتا کیوں نہیں؟
اس سوال کو سن کر نرس عجوبہ کو تاؤ آ گیا۔ کہنے لگی‘ ‘لونی تمہارا خیال ہے کہ انسان اندر سے خوش ہو یا نہ ہو۔ اسے جھوٹ موٹ مسکرانا چاہیے؟“۔ لونی نے ترنت جواب دیا ”بالکل۔ تم مجھے بتاؤ میری دانشمند خالہ کہ جھوٹی مسکراہٹ بہتر ہے کہ سچ مچ ماتھے پر بل ڈالنا اور سختی کی نگاہ ڈالنا۔ عجوبہ کہنے لگی ”مجھ سے کھل کر بات کرو۔ دائروں میں گھما کر اپنی پسند کا جواب حاصل کرنے کی کوشش مت کرو“
اچھا مجھے یہ سمجھاؤ آنٹ عجوبہ کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں، ایسے میں تم مجھے سڑک پر سامنے سے آتی دکھائی دو تو تمہیں میرا گھور کر نفرت سے دیکھنا اچھا لگے گا کہ میرا جھوٹ موٹ مسکرانا۔
عجوبہ نے بلاتوقف جواب دیا”جھوٹ موٹ مسکرانا“
اب لونی کی حکیمانہ شخصیت کا راز کھلا جو شایان کو بطور Vibe اس کی کمرے میں آمد کے ساتھ ہی محسوس ہوا تھا۔ کسی فاتحانہ اظہار یا اشارہ تضحیک کے بغیر کہنے لگا تم نے سوچا ایسا کیوں ہے۔ اگر نہیں تو میں بتاتا ہوں۔ جب میں اپنی نفرت کے باوجود تمہیں دیکھ کر راستے میں مسکرایا تو مان لو کہ میری نفرت جھوٹی اور کمزور ہے۔ یہ اگر سچی ہے تو تمہاری شخصیت نے مجھ میں منافقت کو جنم دیا جس کی وجہ سے میں مسکرا رہا ہوں۔ یو۔ آر۔ اے۔ ونر۔ ان دیٹ کیس۔ لونی لینی کی تصویر حاضر ہے۔
لونی کو گئے بمشکل پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ پین منجمنٹ کی بڑی ماہر ڈاکٹر سارہ آ گئیں۔ ایک چھوٹی سی پیرا میڈیک ٹیم بھی ساتھ تھی۔ لونی کے ساتھ مکالمے کے دوران کمرے میں شایان کے والد بھی آ گئے تھے۔
کمرے میں آتے ساتھ ہی مصنوعی غصے سے چیخیں کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے میرے منگیتر کو اتنا تنگ کیا ہے۔ میں اسے باہر پھینک دوں گی۔ شایان نے جب مجبوری سے اپنے امی ابو کی طرف دیکھا تو کہنے لگی”کیسا اچھا دن ہے میرے ساس سسر بھی موجود ہیں۔ شایان نے اس مذاق پر جزبز ہوکر کہا کہ ابو یہ پاگل ہے۔ اس کا جوان بیٹا ہے۔ ہر وقت مذاق کرتی رہتی ہے۔
ڈاکٹر سارہ نے والد صاحب کو ڈیڈ کہہ کر پوچھا کہ میرے منگیتر نے اپنی زبان میں کیا کہا۔ جب ترجمہ ہوا تو کہنے لگی شادی میں نے کرنی ہے میرے بیٹے نے نہیں۔ وہ شادی کرے گا تو مجھ سے نہیں پوچھے گا۔ یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تم فیصلہ سناؤ۔اس کے ساتھ ہی ماڈلز والے ایک دو پوز بنائے۔ کچھ ہی لمحے کے بعد اپنے گالوں پر ہلکے ہات سے تنبیہ والے تھپڑ مار کر کہنے لگیNo more kidding. Your love Shayan is in pain.First thing first. شایان سے کہنے لگی میں تمہارے پیر سے بندھی بریسز کھولنے آئی ہوں۔
تمہاری چیخیں نکلیں گی مگر ان دو میں سے کوئی اچھی لگتی ہے تو اسے بھی آزما سکتے ہو۔ شایان کا حس مذاق بہت گھمبیر Macabre ہے پوچھا کہ فرق کیا ہو گا۔
وہ کہنے لگی مین جب یہ پروسیجر کروں گی تو اس میں محبت اور جوانی کا ٹچ ہوگا۔ میری کلاس ہوگی۔ تب تمہیں پتہ چلے گا کہ تم نے کس حسینہ کا دل جیتا ہے۔ یہ دونوں یہ کام خالصتاً پروفیشنل انداز میں کریں گی۔ وہ کہنے لگا آج آپ کرلیں پھر ان کو بھی موقع دیں گے۔ جس پر ڈاکٹر سارہ کہنے لگیں بے وفائی تیرا دوسرا نام مرد ہے۔
شایان کی والدہ کو بعد میں پردہ کھینچ کر اندر بلا لیا۔ کئی دفعہ ہاتھ پکڑ کر سکھایا کہ زخم پر مرہم کیسے لگانا ہے۔ یہ آپ کی کار میں اس کی مرہم پٹی کا سامان رکھ دیں گے جو ایک ماہ کے لیے کافی ہے۔
۔شایان کے ابو نے پوچھ لیا کہ اے لڑکی اتنی فٹ اور خوش مزاج کیسے ہے۔ بتانے لگی کہ پچھلے سال میں ایک دن ایسا نہیں جب وہ دس میل نہ دوڑی ہوں برف، آندھی، برسات، سب ہی موسم دیکھ لیے۔ اتوار کے دن ہم میری ساس کی طرف نکل جاتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر سے بیس میل دور ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ بیٹا اور میاں کار میں چلے جاتے ہیں۔ میں دوڑ کر پہنچتی ہوں۔ شایان کے ابو نے پوچھا Running سے جسم کو کوئی خطرہ نہیں۔
ارے بالکل نہیں امریکہ میں ہر سال 450 افراد سوتے میں بستر سے گر کر مرتے ہیں۔ Running سے مرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پر شمار کرلو۔ تمہارا بیٹا لکی ہے میں اسے بھاگ دوڑ کیے بغیر شادی کی آفر کررہی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اقبال دیوان کے کالمز ہمارے ویب میگزین ’نقار خانے‘ میں ”مومن مبتلا“ کے نام سے شائع ہوں گے۔ آپ چار عدد کتب کے مصنف ہیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ، دیوار گریہ کے آس پاس۔ پانچویں کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“ ان دنوں ادارہ قوسین کے ہاں زیرطبع ہے۔ آپ کے کالمز وجود، دلیل،دیدبان اور مکالمہ پر شائع ہوتے رہے ہیں۔آپ سابق بیورکریٹ ہیں.