میتھانول کو کورونا کا علاج سمجھ کر پی جانے والے تین سو ایرانی شہری جاں بحق جبکہ ایک ہزار سے زائد اسپتال میں زندگی موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ڈیلی میل کے مطابق ایرانی سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیل گئی کہ میتھانول انسانی جسم کے اندر وہی کردار ادا کرتا ہے جو باہر سینیٹائزر کا ہوتا ہے، اسے سچ سمجھ کر سینکڑوں شہریوں نے میتھانول پی لیا جس کے باعث ان کی حالت بگڑ گئی۔
ایرانی میڈیا کے مطابق کئی شہروں سے یہ خبر سننے کو ملی ہے، ایتھانول الکوحل کی ہی ایک قسم ہے اور ایران میں اس کی پیداوار پر پابندی ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق ایران میں ایک پانچ سالہ بچے کو اس کے والدین نے زبردستی میتھانول پلا دیا تاکہ وہ کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکے اس کے مضر اثرات کی وجہ سے بچہ بینائی سے محروم ہو گیا۔
کرمان شاہ (Kermanshah) میں بھی میتھانول پینے کی وجہ سے درجنوں ہسپتال پہنچ گے، ایران کے دیگر شہروں کرج اور یزد سے بھی اسی طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
کرمان شاہ کے ڈاکٹر جاوید امینی ثمن نے کہا یہ صرف چہ میگوئیاں ہیں کہ الکوحل جسم کے اندر جا کر صفائی کر دیتا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں پہلی حکومت تبدیل
جنوبی کوریا کی کورونا وائرس کے خلاف کامیابی میں دنیا کے لیے چار اہم سبق
کورونا وائرس کے باعث امریکہ شدید بیروزگاری کے چنگل میں
ایرانی سوشل میڈیا پر فارسی میں غلط علاج وائرل کیا گیا کہ برطانیہ میں کورونا کا شکار سکول ٹیچر اور دیگر ”الکوحل اور شہد“ کے استعمال سے صحت یاب ہو گئے۔
سینی ٹائزر میں الکوحل کی تھوڑی سی مقدار شامل ہوتی ہے اس لیے لوگوں نے یقین کر لیا کہ جب ایتھانول جسم میں جائے گا تو وہ بھی کورونا کو ختم کر دے گا۔
کورونا وائرس نے ایران کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اب تک 30 ہزار سے زائد افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زائد جاں بحق ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے عوام خوف کا شکار ہیں۔
اوسلو میں زہر کے علم کے ماہر ڈاکٹر کنوٹ ہودا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رپورٹ کیے گئے اعدادوشمار درست نہیں اور بہت سے دیگر لوگ بھی ایتھانول کا شکار ہو سکتے ہیں۔
مشروبات میں میتھانول کو سونگھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کے ذائقہ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ پینے کے بعد دماغ اور دیگر انسانی اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سینے میں درد، متلی، بینائی سے محروم ہونا اور کوما میں چلے جانا اس کے نتائج میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ کئی افراد میں کورونا کی معمولی علامات ہوتی ہیں جیسے بخار اور کھانسی وغیرہ اور اس میں دو سے تین ہفتوں میں مریض صحت یاب ہو جاتا ہے لیکن کئی افراد میں، خصوصی طور پر بوڑھے اور پہلے سے بیمار لوگوں میں یہ بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے جو نمونیہ یا پھر موت کا سبب بن رہی ہے۔
تاحال اس وبا کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ سائنسدان اور ڈاکٹر اس علاج کے لئے موثر ویکسین بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس پر ایک سے ڈیڑھ برس لگ سکتا ہے۔