اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کورونا وائرس کے پیش نظراڈیالہ جیل سے 408 انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے احکامات کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی۔
درخواست کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 30 مارچ کو کرے گا۔
بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم میانخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس محمد امین بھی شامل ہیں
سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ نایاب گردیزی کے توسط سے دائر کی گئی راجہ محمد ندیم کی درخواست میں وزارت داخلہ اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اپنا یا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کورونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کا حکم اختیارات سے تجاوز ہے اس لیے قیدیوں کی رہائی کے احکامات غیر قانونی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے رہائی کے احکامات قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے فیصلے کے برعکس ہیں کیونکہ کمیٹی کورونا وائرس پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز بھی شامل تھے تاہم اس طرح سے قیدیوں کو رہا کرنے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریز کیا گیا تھا۔
رہائی کے احکامات ریاست کے تین ستون کے نظریے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کورونا جیسی ایمرجنسی کی صورتحال میں صرف حکومت ہی ایسے قیدیوں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں کی رہائی کے متعلق پالیسی سازی کر سکتی ہے جبکہ عدالت صرف قانون کی تشریح کے لیے ہے۔
درخواست کے مطابق جتنے اختیارات سپریم کورٹ کے پاس ہیں اتنے اختیارات ہائی کورٹ کے پاس نہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری ہونے سے متاثرہ افراد کو ان کے آئینی حقوق سے نہ صرف محروم رکھا گیا ہے بلکہ جس انداز میں انکی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، وہ آئینی مینڈیٹ اور آئینی حقوق کے بر خلاف ہے، اس فیصلے سے آئین کے آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی ہے جسکی سماعت 30 مارچ کو لارجر بینچ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں کریگا
واضح رہے کہ رہائی سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو جیل حکام کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے مطابق اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 5001 قیدیوں کو رکھا گیا ہے جن میں سے 1362 افراد اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں زیادہ تر انڈر ٹرائل قیدیوں کی عمر 55 سال سے زیادہ ہے جنہیں سنجیدہ بیماریاں لاحق ہیں جن کا علاج قید میں رہتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا۔