ایسے وقت میں جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے یورپ میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، یورپ کے ایک ملک بیلارس کے صدر کی جانب سے اس وبا کیخلاف حکومتی اقدامات کے حوالے سے ایک ایسا بیان سامنے آیا ہے جس پر دنیا حیران ہو کر رہ گئی ہے۔
بیلارس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو کہتے ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، دہشت زدہ ہونے کی ضرور ت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت لوگوں نے سرحدیں بند کرنے اور پورے ملک کو قرنطینہ میں ڈالنے کا کہا ہے لیکن میں نے یہ اصولی فیصلہ کیا ہے کہ ہم صرف وہیں قرنطینہ کا عمل کریں گے جہاں ضروری ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان اچھا لگا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بیروزگاری کوروناوائرس سے زیادہ جانیں لے سکتی ہے۔
نیویارک شہر میں پانچ سو سے زائد پولیس اہلکار کورونا وائرس کا شکار
جنوبی کوریا کی کورونا وائرس کے خلاف کامیابی میں دنیا کے لیے چار اہم سبق
کیا کورونا وائرس مغربی جمہوریتوں کو مستقل تبدیل کر دے گا؟
بیلارس کے صدر نے کہا کہ کہ بیرون ملک سے آنیوالے مسافروں کا معائنہ کیا جارہا ہے، ایک دن میں دو، تین مسافر کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں جنہیں قرنطینہ منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ دو ہفتوں بعد جا سکتے ہیں۔
لوکاشنکو سمجھتے ہیں کہ وائرس سے زیادہ پریشانی اور ذہنی دباؤ خطرناک ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیلارسی حکومت کو کورونا وائرس کی کوئی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق غیر معمولی طور پر بیلارس کے حزب اختلاف کے رکن اندرے کِم، جو عام طور پر حکومت کو نشانہ تنقید بنائے رکھتے ہیں، نے بھی کورونا وباء سے متعلق صدر لوکاشنکو سے اتفاق کیا ہے۔
اس وقت بیلاروس میں نظام زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے، سینما ہال، تھیٹر کھلے ہیں اور اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔بیلاروس نے دنیا بھر کے برعکس اپنے فٹبال کے میچز منسوخ نہیں کیے۔
تاہم عوام اس وقت محتاط طریقہ اپنائے ہوئے ہے ۔ عوامی تشویش کی وجہ سے کالجوں ، یونیورسٹیوں کے اوقات کار تبدیل کر دیے گئے ہیں ،بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں عوامی مقامات پر رش کم ہوگیا ہے۔