دی گارڈین میں شائع ہونے والے ایک مضمون بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث کیے جائے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انسانی جانیں بچانے کے لیے دنیا کے بے شمار شہروں کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے لیکن گھروں میں قید ایک کمزور گروہ کو گھریلو تشدد کا مزید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
بد سلوکی اور گھریلو تشدد کی شکار خواتین اور بچوں کے لیے قرنطینہ کے دوران فرار کا راستہ اختیار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ برازیل سے جرمنی اور اٹلی سے چین تک، سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ بدسلوکی اور تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
سماجی کارکنوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ کورونا وائرس کے ابتدائی مرکز، چین کے صوبہ ہوبی، میں پولیس کو گھریلو تشدد کے واقعات کی اطلاع فروری میں لاک ڈاؤن کے دوران موصول ہونا شروع ہو گئی تھی۔
اسی طرح برطانیہ کی ایک کاؤنٹی میں ایسے واقعات کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں47 سے بڑھ کر 162 ہو گئی ہے۔
کورونا وائرس: جب اولاد نے باپ کی آخری خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا
طبی ماہرین نے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کورونا کی نئی لہر کا خدشہ ظاہر کر دیا
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کیا مسائل درپیش ہیں؟
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر وان فی نے ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تشدد اور خراب برتاؤ کرنے والوں کے خلاف مہم چلانے والی ان کی تنظیم کے مطابق تشدد میں اضافے کی 90 فیصد وجوہات کی وجہ کورونا وائرس کی وبا ہے۔
یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کا عالمی سطح پر اعادہ دیکھا جا رہا ہے۔ برازیل کے براڈ کاسٹر گلوبو کا کہنا ہے کہ برازیل میں سرکاری سطح پر چلنے والے ایک مرکز میں کورونا وائرس کے باعث الگ تھلگ رہنے والوں میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گھریلو تشدد کے مظہر پر کام کرنے والے ریو ڈی جنیرو جج اور اڈریانا میلو کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں گھریلو تشدد میں 40 سے 50 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
اٹلی میں سماجی کارکنوں کا کہنا تھا کہ ہیلپ لائنوں کے استعمال میں تیزی سے کمی آئی ہے اور اب اس کے بجائے انہیں پریشان کن پیغامات اور ای میلز موصول ہو رہے ہیں۔
ایک پیغام میں خاتون نے لکھا کہ اپنی جان بچانے کے لیے اس نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا تھا اور مدد کے لیے ٹیکسٹ میسج بھیجا۔
ڈی آئی آر کی صدر لیلاپیلیڈینو کے مطابق یہ ایک بہت ہنگامی صورتحال ہے اور خواتین کے لیے ایک مایوس کُن بات ہے کیونکہ وہ باہر نہیں جا سکتیں۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد گھریلو زیادتی کی اطلاعات کی تعداد میں دھماکہ خیز اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
کورونا وائرس وبا کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
کورونا وائرس کا علاج کرنے والے برطانوی ڈاکٹر کی درد بھری داستان
اسپین میں لاک ڈاؤن کے قواعد انتہائی سخت ہیں اور بہت سارے لوگوں کو اس کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے، وہاں بھی حکومت نے خواتین سے کہا ہے کہ اگر وہ زیادتی کی اطلاع دینے گھر سے نکلیں گی تو ان پر جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔
19 مارچ کو گھریلو تشدد سے ہلاکت کا پہلا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ساحلی صوبے والنسیا میں ایک عورت کو اپنے بچوں کے سامنے اس کے شوہر نے قتل کردیا۔
سماجی کارکنوں کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین اور بچوں کے لیے خطرہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ویمن ڈلیور میں کام کرنے والے سینئر سماجی کارکن مارسی ہرش نے بتایا کہ ایسے واقعات بحران کے حالات میں پیش آتے ہیں، ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ تشدد کی شرح میں اضافہ کے بعد خواتین کی مدد حاصل کرنے والی سروسز تک رسائی کی صلاحیت کم ہوجائے گی اور یہ ایک حقیقی چیلنج ہے۔
بہت سارے ممالک میں قرنطینہ میں موجود خواتین اور بچوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر قانون اور پالیسی میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اٹلی کے شہر ٹینٹو میں ایک پراسیکیوٹر نے فیصلہ دیا ہے کہ گھریلو تشدد کی حالت میں زیادتی کرنے والے کو گھر چھوڑنا چاہئے نہ کہ زیادتی کے شکار۔
ٹریڈ یونین جی آئی ایل کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے گھر تک محدود رہنا ہر ایک کے لیے مشکل ہے۔
انڈیا کی ریاست اتر پردیش خواتین پر تشدد کے لحاظ سے ملک میں بدترین ریکارڈ کی حامل ہے۔
یہاں کی پولیس نے زیادتی اور تشدد کے معاملات میں اضافے کے پیشِ نظر ایک نئی ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے۔
یونان میں عہدیداروں نے بتایا کہ وہ قرنطینہ کے باعث سامنے آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی مدد کرنے کے لیے ایک مہم چلا رہے ہیں۔