اپنی تاریخ کے جدید ترین دور کا انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند اور پھر ماریخ تک پہنچنے کی کاوشوں میں مصروف نظر آتا ہے۔
طب کی دنیا میں بھی وہ ایسے امراض پر قابو پا چکا ہے جو گزشتہ صدیوں میں وبائی شکل اختیار کر کے کروڑوں افراد کو شکار کر لیا کرتے تھے۔
آج کا انسان موت کو شکست دینے کی تمنا کا اسیر ہے اور سپر ہیومین بن جانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ ایسے میں معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کے ہم پلہ ملک چین سے وبائی مرض کا پھوٹنا ایک حیران کن اور آنکھیں کھول دینے والا معاملہ ہے۔
کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس سے اب تک 30 ہزار کے قریب اموات واقع ہو چکی ہیں اور دنیا کے 198 ممالک کے پانچ لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
دنیا کی معیشت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے، صنعتیں، فیکٹریاں اور کئی سرکاری و نجی ادارے بند ہیں۔
لیکن یہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا، آج سے پہلے بھی کئی وبائی امراض آئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنی بھینٹ چڑھا گئے۔
ایج آئی وی / ایڈز کی وبا
ایچ آئی وی اور ایڈز کی وبا سب سے پہلے 1976 میں افریقہ کے ملک کانگو میں پھوٹی تھی۔
یہ وبا 1981 سے لے کر اب تک تین کروڑ 60 لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔
اس وقت ایچ آئی وی کی بیماری میں تین کروڑ سے لے کر تین کروڑ 50 لاکھ لوگ مبتلا ہیں جن کی اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہے۔
فلو کی وبا
1968 میں ہانگ کانگ سے پھوٹنے والی وبا نے چند دنوں کے اندر ویتنام، سنگاپور، بھارت، فلپائن، امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس وبا سے دس لاکھ سے زائد زندگی کی بازی ہار گئے۔ گو کہ اس بیماری کے باعث شرح اموات محض 0.5 فیصد تھی اس کے باوجود ہانگ کانگ کے پانچ لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔
ایشیئن فلو (1956-1958)
ایشیئن فلو انفلوینزا اے سے نکلی ہوئی ایک وبائی بیماری ہے جو 1956میں چین سے شروع ہوئی اور اس کا اختتام 1958 میں ہوا۔
چین کے صوبے گوزیہو سے پھوٹنے والی وبا نے سنگاپور، ہانگ کانگ، اور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وبا سے 20 لاکھ سے لوگ ہلاک ہوئے جن میں 70 ہزار کے قریب اموات امریکہ میں ہوئیں۔
انفلوئنزا (1918-1920)
سال 1918 سے لے کر 1920 تک تباہی مچا دینے والی وبا انفلوئنزا نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا اور 2 کروڑ سے پانچ کروڑ کے درمیان لوگ اس سے ہلاک ہوئے۔
ایک اندازے کے مطابق وبا پھوٹنے کے پہلے پچیس ہفتوں کے دوران ڈھائی کروڑ افراد فوری ہلاک ہو گئے۔
اس بیماری نے سب سے زیادہ بچوں، بوڑھوں اور پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا افراد کو اپنا شکار بنایا۔
ہیضے کی وبا (1910-1911)
ہیضے کی وبا بھارت سے پھوٹی جس نے برصغیر کے 8 لاکھ باشندوں کی جانیں لیں، بعد ازاں اس نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، یورپ اور روس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہیضے سے متاثرہ مریض کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہو جاتی ہے، آنکھیں، ہاتھ پاؤں خشک ہو جاتے ہیں جس سے جلد بُھربُھری ہوجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں اسہال اور قے ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پٹھوں میں درد کی شکایت بھی ہوجاتی ہے۔ پانی میں کمی کے باعث انسان فرشتہ اجل کا شکار بن جاتا ہے۔