• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home پاکستان

ملزمان کے رہا ہوتے ہی کراچی میں ڈکیتیاں شروع ہوگئیں، چیف جسٹس پاکستان

by sohail
اپریل 1, 2020
in پاکستان, تازہ ترین, تحقیقاتی رپورٹس
0
0
SHARES
1
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

قیدیوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے  سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دے دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے تمام نئے قیدیوں کی اسکرینگ لازم قرار دے دی ہے  اور ہدایات جاری کی ہیں کہ کورونا سے متاثرہ کسی شخص کے جیل میں داخل نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

سپریم کورٹ نے جیلوں میں گنجائش اور موجود قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلی۔ اس کے علاوہ خواتین اور 60 سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جیلوں میں ڈاکٹرز کی خالی آسامیوں پر بھی جواب طلب کرتے ہوئے  سماعت 6 اپریل تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ میں آئندہ سماعت پر قیدیوں کی رہائی کی قانونی حیثیت پر بحث ہوگی۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت پر بھی انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں۔  سپریم کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کی بھی سخت سرزنش کی۔

بدھ کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس کے پیش نظر ہائی کورٹس کے قیدیوں کی رہائی کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔  لارجر بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان میانخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد شامل ہیں۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور انسپکٹر جنرلز آف پولیس بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کا احوال

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے واضح کیا کہ  ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، ایسا نہیں  ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے۔

 انہوں نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو اس انداز میں رہا کیا جا سکتا ہے۔ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ملک میں ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی مشکل کام ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے انتہائی اہم سوال اٹھایا کہ ملک میں پولیس کورونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے تو ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟

کراچی میں بڑھتی ہوئی ڈکیتیوں کی وارداتوں پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ وہاں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں اور ڈیفنس کا علاقہ ڈاکووں کے کنٹرول میں ہے، ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کورونا مریض کے نام پر آتے ہیں اور چیکنگ کے نام پر گھروں کا صفایا کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ  زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے جب سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ کے معاملے پر وہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

جسٹس قاضی امین نے  اپنے ریمارکس میں کہا کہ قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہوگا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کے مطابق قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔

اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا جس پر  چیف جسٹس  نے جواب دیا کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے، کسی الزام کی پرواہ نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ لاہور میں کیمپ جیل 6 کو قرنطینہ بنا دیا گیا ہے، جو مشتبہ ہے اسکو قرنطینہ میں رکھا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس کا رخ سندھ کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر کئی ملزمان کو رہا کیا گیا، اگر ایسے لوگوں کو رہا کرنا ہے تو جیلوں کا سسٹم بند کر دیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے چار سطروں کی جو مبہم پریس ریلیز جاری کی اس سے کتنے قیدیوں کو رہائی ملی؟

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں۔ تاہم وہ رہا ہونے والے قیدیوں کے مبینہ جرم کی نوعیت نہ بتا سکے جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ رہا ہونے والے 519 قیدی کس قسم کے جرائم میں ملوث تھے، انہوں نے رہا افراد کی تفصیلات طلب کرلی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کا شور اٹھا تو کیا قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا؟

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام نہیں ہوگی، جو بھی ہو گا لیگل فریم ورک کے اندر ہو گا۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے انتظامی حکم پر قیدیوں کی رہائی کی سمری تیار ہوئی۔

جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے پاس ایسے انتظامی احکامات دینے کا اختیار کہاں سے آ گیا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نہ روکتی تو پنجاب سے دس ہزار جرائم پیشہ لوگ رہا ہو جاتے۔

خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت نے کوئی قیدی رہا نہیں کیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا ہائی کورٹس نے ہر مقدمے کا الگ جائزہ لیکر رہائی کا حکم دیا؟  اور کیا اجتماعی طور پر ضمانت کا حکم دیا جا سکتا ہے؟

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی بالکل خاموش کھڑے تھے۔ اسی دوران  بینچ نے انکی سر زنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ انہوں نے اس معاملے میں ہائی کورٹ کی کیا معاونت کی؟

مگر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالتی سوالات کا جواب نہ دے سکے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ ہائی کورٹ میں بھی ڈمی بن کر کھڑے رہے تھے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رہا کیے گئے قیدی چھوٹے جرائم میں ملوث تھے، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ چھوٹے جرائم سے آپ کی کیا مراد ہے؟ فوجداری قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔

 ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنے کہا کہ یہ قیدی آوارہ گردی جیسے جرائم میں ملوث تھے، ان کو شخصی ضمانت پر بھی رہا کیا جا سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟

ایڈووکیٹ اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا، قیدیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی جس کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا۔

چیف جسٹس نے وکیل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ سیکشن 168کا نفاذ کب اور کہاں ہوتا ہے؟ جس کا ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جواب نہ دے سکے۔

عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آبادپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں آپ کو قانون کا پتا ہونا چاہئے تھا، ایک وکیل کی طرح عدالت میں پیش ہوں ڈمی کی طرح کھڑے نہ ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سر میں قانون کو دیکھ لیتا ہوں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اب فیصلہ ہو چکا ہے، اب آپ کیا دیکھیں گے۔

واضح رہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشہ کے پیش نظر چار سو سے زائد قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں پانچ کورونا کیس نکلنے پر ڈیفنس میں بنگلہ سیل کیا گیا، جیلوں کو خالی کرکے لوگوں کے گھروں کو سیل کیا جا رہا ہے، کیا سندھ میں کوئی دماغ استعمال بھی کرتا ہے یا نہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کا مریض شریف آدمی بھی ہو تو پولیس کے ذریعے پکڑا جاتا ہے، شریف آدمی کو پکڑا جا رہا ہے اور جرائم پیشہ افراد کو چھوڑا جا رہا ہے۔ انہوں  نے استفسار کیا کہ سندھ کی جیلوں میں کورونا وائرس کے کتنے مریض سامنے آئے؟

جس پر ایڈووکیٹ جنرل  سندھ نے آگاہ کیا کہ صرف ان قیدیوں کو رہا کیا گیا جن کی سزائیں 3 سال سے کم تھیں۔ انہوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے دلائل دیے کہ وہاں بھی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ تاہم  چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نے رہائی نہیں دی ہوگی۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جو منظوری کے لیے سندھ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عملی طور پر وزیراعلیٰ اور سندھ کابینہ میں کوئی فرق نہیں، جرائم پیشہ لوگوں کو چھوڑنا بڑا خطرناک ہوسکتا ہے، یہ رہا ہونے والے لوگ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے پر اپنی گائیڈ لائن دے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قیدیوں کی رہائی کی فہرستیں کس نے بنائی، سب نے اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا ہوگا، یہ انتخاب کیسے ہوا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 26 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا، اسی دن فہرست بھی بن گئی لگتا ہے یہ فہرست پہلے ہی بنا لی گئی تھیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے ملزمان بھی معمولی جرائم میں آتے ہیں۔

اس پر عدالتی معاون شیخ ضمیر نے کہا کہ قیدیوں کی بھلائی چاہتا ہوں لیکن عدالتی احکامات کی حمایت نہیں کرتا، معاشرے کے خلاف جرائم میں تفریق کرنا پڑے گی، ایک شخص نے بھی آرٹیکل 9 کے تحت رہائی کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے 224 قیدی رہا کیے گئے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ اسپتال کورونا سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں، عدالت نے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور بستروں کی دستیابی سے متعلق بھی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

سپریم کورٹ نے مزید احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی قیدی میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو اسے قرنطینہ کیا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے جا چکے ہیں بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کی جیلوں میں بھی قرنطینہ مراکز قائم کیے جائیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کی رپورٹ، ڈاکٹرز اور طبی عملے کو دی گئی تربیت، حفاظتی کٹس اور دستیاب وینٹیلیٹرز کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

Tags: سپریم کورٹ‌آف پاکستان
sohail

sohail

Next Post
دنیا کو ایک طویل عرصے کے لاک ڈاؤن کے لیے تیار رہنا چاہیے

دنیا کو ایک طویل عرصے کے لاک ڈاؤن کے لیے تیار رہنا چاہیے

وبا کے دنوں میں کرپشن

وبا کے دنوں میں کرپشن

ہمارے نواب صاحب - پہلی قسط

اسپین میں کورونا کے نئے کیسز میں کمی مگر اموات میں اضافہ

اسپین میں کورونا کے نئے کیسز میں کمی مگر اموات میں اضافہ

کورونا وبا دنیا بھر میں حکومتیں تبدیل کر سکتی ہے

کورونا وبا دنیا بھر میں حکومتیں تبدیل کر سکتی ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In